بچھڑے ہیں تو پہلی سی روایت نہیں چھوڑی
اس بار ملاقات کی صورت نہیں چھوڑی
یہ بات بھی سچ ہے کہ تعلق نہیں رکھا
یہ بات بھی سچ ہے کہ محبت نہیں چھوڑی
اس بار بھی ملحوظ رہی خاطرِ دشمن
اس بار بھی لہجے کی لطافت نہیں چھوڑی
اس نے بھی روایات کا دامن نہیں چھوڑا
ہم نے بھی خیالات کی جدت نہیں چھوڑی
جانے نہ دی ہاتھوں سے بزرگوں کی وراثت
جاوید کبھی ہم نے شرافت نہیں چھوڑی
جاوید اکرم
No comments:
Post a Comment