Wednesday, 31 March 2021

ستم کچھ اور ہم اس چارہ گر کے دیکھ لیتے ہیں

 ستم کچھ اور ہم اس چارہ گر کے دیکھ لیتے ہیں

کہ اس کے دل میں پھر سے ہم اُتر کے دیکھ لیتے ہیں

جو ہے اس ہجر کے صحرا سے آگے وصل کی وادی

تو پھر اس دشتِ ویراں سے گُزر کے دیکھ لیتے ہیں

غمِ دوراں سے فُرصت مل گئی مجھ کو تو چند لمحے

تیری یادوں کے سائے میں ٹھہر کے دیکھ لیتے ہیں

اگر میرے سنورنے سے پریشاں ہو گیا دلبر

تو پھر اس کے لیے ہم بھی بکھر کے دیکھ لیتے ہیں

اندھیری رات کا مشکل سفر جب ختم ہو جائے

تو کچھ جلوے یہاں اُجلی سحر کے دیکھ لیتے ہیں

پرندے لوٹ آئیں گے سبھی اب آشیانوں میں

تبسم لب پہ کتنا ہے شجر کے دیکھ لیتے ہیں

کسی خاموش بستی میں بسا لیں، گھر چلو محسن

چلو وِیراں نگر میں ہم ٹھہر کے دیکھ لیتے ہیں


محسن کشمیری

No comments:

Post a Comment