Wednesday 31 March 2021

میں جب چھوٹا سا تھا کاغذ پہ یہ منظر بناتا تھا

 میں جب چھوٹا سا تھا کاغذ پہ یہ منظر بناتا تھا

کھجوروں کے درختوں کے تلے اک گھر بناتا تھا

میں آنکھیں بند کر کے سوچتا رہتا تھا پہروں تک

خیالوں میں بہت نازک سا اک پیکر بناتا تھا

میں اکثر آسماں کے چاند تارے توڑ لاتا تھا

اور اک ننھی سی گڑیا کے لیے زیور بناتا تھا

اڑا کر روز لے جاتی تھیں موجیں میرے خوابوں کو

مگر میں بھی گھروندے روز ساحل پر بناتا تھا

مری بستی میں میرے خون کے پیاسے تھے سب لیکن

نہ میں تلوار گڑھتا تھا نہ میں خنجر بناتا تھا

ہدایت کار اس دنیا کے ناٹک میں مجھے والی

کبھی ہیرو بناتا تھا کبھی جوکر بناتا تھا


والی آسی

No comments:

Post a Comment