میں جب چھوٹا سا تھا کاغذ پہ یہ منظر بناتا تھا
کھجوروں کے درختوں کے تلے اک گھر بناتا تھا
میں آنکھیں بند کر کے سوچتا رہتا تھا پہروں تک
خیالوں میں بہت نازک سا اک پیکر بناتا تھا
میں اکثر آسماں کے چاند تارے توڑ لاتا تھا
اور اک ننھی سی گڑیا کے لیے زیور بناتا تھا
اڑا کر روز لے جاتی تھیں موجیں میرے خوابوں کو
مگر میں بھی گھروندے روز ساحل پر بناتا تھا
مری بستی میں میرے خون کے پیاسے تھے سب لیکن
نہ میں تلوار گڑھتا تھا نہ میں خنجر بناتا تھا
ہدایت کار اس دنیا کے ناٹک میں مجھے والی
کبھی ہیرو بناتا تھا کبھی جوکر بناتا تھا
والی آسی
No comments:
Post a Comment