جو شگفتہ ہے وہ سنگین بھی ہو سکتی ہے
بولنے سے یہاں توہین بھی ہو سکتی ہے
اب تو ہم خیر گماں کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں
اس طبیعت کا جو رنگین بھی ہو سکتی ہے
تُو نے جس کو نظر انداز کیا ہے یونہی
وہ نظر باعثِ تحسین بھی ہو سکتی ہے
میں اسے دیکھ کے حیران بھی ہو سکتا ہے
ایسی صورت کبھی غمگین بھی ہو سکتی ہے
شاہزادی! یہ مِرے دل کی ریاست تِرے نام
اس پہ چل کر تِری تسکین بھی ہو سکتی ہے
اس لگاوٹ کو کوئی اور لگاوٹ نہ سمجھ
شعر سننے کی وہ شوقین بھی ہو سکتی ہے
شہزاد مرزا
No comments:
Post a Comment