دل دھڑک اٹھتا ہے ہنس کر گفتگو کرتے ہوئے
کھوکھلے احساس کی چادر رفُو کرتے ہوئے
جانے کس بے چارگی میں کھو گئی میری شناخت
عمر بیتی جا رہی ہے جــستجو کرتے ہوئے
لطف یہ کہ در پہ تھے جو مطمئن، دیکھا انہیں
بند دروازے کے پیچھے ہاؤ ہو کرتے ہوئے
دھوپ اپنے ساتھ اک اک نقشِ پا لیتی گئی
تہ بہ تہ گہرا اندھیرا رو برو کرتے ہوئے
دانہ دانہ بو رہا ہے پھر کوئی دہقانِ شب
پھر کسی فصلِ سحر کی آرزو کرتے ہوئے
میں نے کل شہزاد دیکھا تھا کسی درویش کو
سائباں میں اپنی پلکوں کے، وضو کرتے ہوئے
مسلم شہزاد
No comments:
Post a Comment