اک خیال افروز موج آئی تو تھی
میں نے اپنی سطر مہکائی تو تھی
تم نہیں تھے یاد تھی ہر سو محیط
میں نہیں تھی میری تنہائی تو تھی
در بدر بے پیرہن تھا خواب عشق
میں نے اس کو آنکھ پہنائی تو تھی
پھر مجھے اس نے کہا سب جھوٹ ہے
ایک لمحے کو میں گھبرائی تو تھی
دور تک بچھتا چلا جاتا تھا شوق
کچھ نہیں تھا دشت پیمائی تو تھی
کیوں مجھے دریا بلاتا ہے قریب
اس کی آنکھوں میں بھی گہرائی تو تھی
کیوں زمین و آسماں ہیں رقص میں
اور کیا تھا ایک انگڑائی تو تھی
لمحہ بھر کو ہی ڈھلا تھا آفتاب
لمحہ بھر کو راہ دھندلائی تو تھی
میں کہ حق پر ڈٹ گئی تھی راشدہ
اس کی باتوں میں بھی سچائی تو تھی
راشدہ ماہین ملک
No comments:
Post a Comment