Wednesday, 31 March 2021

اک خیال افروز موج آئی تو تھی

 اک خیال افروز موج آئی تو تھی

میں نے اپنی سطر مہکائی تو تھی

تم نہیں تھے یاد تھی ہر سو محیط

میں نہیں تھی میری تنہائی تو تھی

در بدر بے پیرہن تھا خواب عشق

میں نے اس کو آنکھ پہنائی تو تھی

پھر مجھے اس نے کہا سب جھوٹ ہے

ایک لمحے کو میں گھبرائی تو تھی

دور تک بچھتا چلا جاتا تھا شوق

کچھ نہیں تھا دشت پیمائی تو تھی

کیوں مجھے دریا بلاتا ہے قریب

اس کی آنکھوں میں بھی گہرائی تو تھی

کیوں زمین و آسماں ہیں رقص میں

اور کیا تھا ایک انگڑائی تو تھی

لمحہ بھر کو ہی ڈھلا تھا آفتاب

لمحہ بھر کو راہ دھندلائی تو تھی

میں کہ حق پر ڈٹ گئی تھی راشدہ

اس کی باتوں میں بھی سچائی تو تھی


راشدہ ماہین ملک

No comments:

Post a Comment