اس شہر میں انصاف کا معیار دیکھ کر
بازار بک گیا ہے خریدار دیکھ کر
میدانِ کارزار میں حیران ہو گئے
ہم دوستوں کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
مرتے ہیں یہاں ہر گھڑی اربابِ بصیرت
جیتے نہیں ہیں وقت کی رفتار دیکھ کر
میری طرف نہ دیکھا میرا بھائی مگر آج
سکتے میں کیوں ہے بیچ کی دیوار دیکھ کر
منزل کی اور آخرش نہ بڑھ سکا کوئی
منزل کٹھن، یہ راستہ دشوار دیکھ کر
کل رات کوئی حادثہ تو پیش آیا ہے
سب لوگ پریشان ہیں اخبار دیکھ کر
ہم بھی حصارِ ذات میں سرکش ہوئے عقیل
سود و زیاں کے کھیل میں آزار دیکھ کر
عقیل فاروق
No comments:
Post a Comment