Wednesday, 31 March 2021

شور دریا ہے کہانی میری

 شورِ دریا ہے کہانی میری

پانی اس کا ہے روانی میری

کچھ زیادہ ہی بھلی لگتی ہے

مجھ کو تصویر پرانی میری

جب بھی ابھرا تِرا مہتابِ خیال

کھِل اُٹھی رات کی رانی میری

بڑھ کے سینے سے لگا لیتا ہوں 

جیسے ہر غم ہو نشانی میری 

مہرباں مجھ پہ ہے اک شاخِ گُلاب 

کیسے مہکے نہ جوانی میری 

پھر تِرے ذکر کی سرسوں پھُولی 

پھر غزل ہو گئی دھانی میری 

تم نے جو بھی کہا میں نے مانا 

تم نے اک بات نہ مانی میری 

مختصر بات تھی جلدی بھی تھی کچھ 

اس پہ کچھ زود بیانی میری 


باقر نقوی

No comments:

Post a Comment