Wednesday, 31 March 2021

کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے

 کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے

ہمیں ہوا کی زد میں تھے ہمیں شکار ہو گئے

سیاہ دشتِ خار سے کہاں دو چار ہو گئے

کہ شوقِ پیرہن تمام تار تار ہو گئے

یہاں جو دل میں داغ تھا وہی تو اک چراغ تھا

وہ رات ایسا گُل ہوا کہ شرمسار ہو گئے

عزیز کیوں نہ جاں سے ہو شکست آئینہ ہمیں

وہاں تو ایک عکس تھا،۔ یہاں ہزار ہو گئے

ہمیں تو ایک عمر سے پڑی ہے اپنی جان کی

ابھی جو ساحلوں پہ تھے کہاں سے پار ہو گئے


احمد محفوظ

No comments:

Post a Comment