بہت مصروف رہتا ہوں
بہت مصروف رہتا ہوں
دلوں کے سرد موسم پر
چمکتی دھوپ کا ٹکڑا بچھانے میں
محبت کے کسی ویران ساحل پر
پڑی ہے موج چھوٹی سی
اسے دریا بنانے میں
وہ اچھے دن
ابھی جو خواہشوں کی منزلوں میں ہیں
انہیں نزدیک لانے میں
گزر اوقات کرتا ہوں
میں اپنے جس خرابے میں
وہیں اک شہر کی تعمیر میں
مصروف رہتا ہوں
سوادِ چشم میں
ٹھہرا ہوا جو خواب ہے کب سے
میں بس اس خواب کی تعبیر میں
مصروف رہتا ہوں
جاوید شاہین
No comments:
Post a Comment