روح کو میری توجہ چاہیے
زخم سے گہری توجہ چاہیے
گھر کی حالت دیکھ کر لگتا نہیں
اب اسے کوئی توجہ چاہیے
جم گئی ہے کائی سی دہلیز پر
تیرے قدموں کی توجہ چاہیے
پہلے مجھ کو چاہیے تھا تُو، مگر
اب فقط تیری 'توجہ' چاہیے
ایک چشمِ تر کہیں گم ہو گئی
اے مِری مٹی! توجہ چاہیے
ڈُوبتے سورج کے یہ الفاظ تھے
گُھپ اندھیرے کی توجہ چاہیے
بے خیالی تُو کہاں ہے آج کل؟
تجھ کو بھی تھوڑی توجہ چاہیے
کر رہے ہیں آپ دیوانہ جسے
اس کو پہلے ہی 'توجہ' چاہیے
اکرام بسرا
No comments:
Post a Comment