غم سے منسوب کروں، درد کا رشتہ دے دوں
زندگی! آ تجھے، جینے کا سلیقہ دے دوں
بے چراغی، یہ تیری شامِ غریباں! کب تک
چل، تجھے جلتے مکانوں کا اُجالا دے دوں
زندگی اب تو یہی شکل ہے، سمجھوتے کی
دُور ہٹ جاؤں تیری راہ سے، رستہ دے دوں
تشنگی تجھ کو بُجھانا، مجھے منظور نہیں
ورنہ قطرہ کی ہے کیا بات، میں دریا دے دوں
لی ہے انگڑائی، تو پھر ہاتھ اُٹھا کر رکھیے
ٹھہرئیے، میں اسے لفظوں کا لبادہ دے دوں
اے میرے فن، تجھے تکمیل کو پہنچانا ہے
آ، تجھے خون کا میں آخری قطرہ دے دوں
سُورج آ جائے کسی دن جو میرے ہاتھ علی
گھونٹ دوں رات کا دَم، سب کو اُجالا دے دوں
علی احمد جلیلی
No comments:
Post a Comment