قسمت کی خوبی دیکھیے
میں تو سمجھی تھی سمندر کو پُر سکون
دیکھتے ہی دیکھتے اس میں طوفان آ گئے
میرے صیّاد کو ضد ہے کہ قفس کر دوں خالی
وہ بھی مجبور ہے، اس کے نئے مہمان آ گئے
منزل قریب ہے مجھے لگ رہا تھا یوں
چلتے چلتے یک دم مگر راستے ویران آ گئے
میں لمحوں کی قید سے سمجھ رہی تھی خود کو آزاد
بیچ میں کہاں سے یہ زمان و مکان آ گئے
بچا کے رکھے تھے کچھ پتے، کچھ شگُوفے
قسمت میری دیکھیے وہ بھی صرف خزاں ہو گئے
عمرانہ مشتاق مانی
No comments:
Post a Comment