Tuesday, 30 March 2021

میں تو سمجھی تھی سمندر کو پر سکون

 قسمت کی خوبی دیکھیے


میں تو سمجھی تھی سمندر کو پُر سکون

دیکھتے ہی دیکھتے اس میں طوفان آ گئے

میرے صیّاد کو ضد ہے کہ قفس کر دوں خالی

وہ بھی مجبور ہے، اس کے نئے مہمان آ گئے

منزل قریب ہے مجھے لگ رہا تھا یوں

چلتے چلتے یک دم مگر راستے ویران آ گئے

میں لمحوں کی قید سے سمجھ رہی تھی خود کو آزاد

بیچ میں کہاں سے یہ زمان و مکان آ گئے

بچا کے رکھے تھے کچھ پتے، کچھ شگُوفے

قسمت میری دیکھیے وہ بھی صرف خزاں ہو گئے


عمرانہ مشتاق مانی

No comments:

Post a Comment