کوئی دابی پور کماد کی
اک منزل پچھلے چاند کی
نت روشن جس کی لَو
وہ وقت کو پیچھے چھوڑ گئی
اسے دھنّے واد کہو
دابی ہوئی پور کماد کی
جو پھوٹی مگھر پَو
کتنوں کو یہی اک چاہ تھی
وہ صرف مخاطب ہو
اے روپ جمال وصال کے
ترا کون سا ہے شبھ ناؤں
وہ جن میں تیرے لوگ تھے
کن گھاٹوں اترے گاؤں
کن صدیوں پر تری چھاؤنی
کن نسلوں پر تری چھاؤں
کہہ کتنی نرم دہائیاں
ترا دیکھتے گذریں روپ
کن پلکوں میں تری چھاؤں تھی
کن چہروں پر تری دھوپ
تری نظر نیازیں بانٹتی
بھکشا میں روپ سروپ
تو کس سرما کی چاندنی
گرما کی شکر دوپہر
تو صبح میں سویا بالکا
تو گاؤں میں پچھلا پہر
ست رنگا خواب فقیر کا
یا بھید بھری دوپہر
اک پوری نیند کی شانتی
تری کجلے والی لہر
اے سنبھلے جسم کی نازنیں
کئی عمریں تجھ پر تنگ
تو شبد قدیم کتاب سے
اظہار سے جس کی جنگ
تو ذات حیات کے ساتھ کی
کیوں نکلی غیر کے سنگ؟
تو سینوں بیچ پدھارتی
کیوں تو نے اوڑھے رنگ
میں شاعر پچھلے جنم کا
تو میری پرانی منگ
اب جیون اوڑھ کے آئی تو
سہہ تنہائی کے ڈھنگ
احسان اکبر
No comments:
Post a Comment