Wednesday, 31 March 2021

آنکھ چرا کر نکل گئے ہشیاری کی

 آنکھ چُرا کر نکل گئے، ہُشیاری کی

سمجھ گئے تم بھی موقعے کی باریکی

دریا پار سفر کی جب تیاری کی

موسم نے ہر بار بڑی غداری کی

اب لگتا ہے مُڑ کے دیکھ تو سکتا تھا

آخر حد بھی ہوتی ہے خودداری کی

بار بار آکاش نے کی آتش بازی

رات منایا ہم نے جشن تاریکی

شاید صرف اُجالا کر کے بُجھ جائے

شاید نیّت بدل جائے چنگاری کی

دھڑکن کو لغزش کی چھُوٹ نہیں بالکل

دل نے اتنی سخت ہدایت جاری کی


سبودھ لال ساقی

No comments:

Post a Comment