Wednesday, 31 March 2021

حد فاصل تو فقط درد کا صحرا نکلی

 حدِ فاصل تو فقط درد کا صحرا نکلی

چشم افسردگیٔ خشک ہی دریا نکلی

اک ذرا ٹھیس لگی ٹوٹ گئی ہمتِ جاں

آہنی جس کو سمجھتے تھے وہ شیشہ نکلی

روز و شب اک نئی امید نئی سی الجھن

آزمائش جسے سمجھے تھے نتیجہ نکلی

نا مُرادی کا ہے کُہرہ سا دل و ذہن پہ وہ

کوئی خواہش سی تو نکلی ہے مگر کیا نکلی

عمر بھر ساتھ رہے یاد تِری دِکھ ہو کہ سکھ

کیا سمجھتے تھے اسے ہم یہ مگر کیا نکلی

ڈر چٹکنے کی خوشی پر ہی بکھرنے کا ہوا

بُوئے گُل پھُوٹ کے جب غُنچہ بہ غُنچہ نکلی

خواب یوں بھی کبھی تعبیر میں اپنے نہ ڈھلے

زندگی اپنی کسی زیست کا حصہ نکلی

کیا سبب ہے کہ تُلا ہے تو مٹانے پہ ہمیں

آسماں ایک بھی کیا اپنی تمنا نکلی

وقت کا کوہِ گِراں کاٹ کے فرہاد بنوں

کامرانی اسی رستے سے ہمیشہ نکلی


قیصر خالد

No comments:

Post a Comment