Wednesday, 31 March 2021

یہ واعظ کیسی کیسی باتیں ہم سے کرتے ہیں​

 یہ واعظ کیسی کیسی باتیں ہم سے کرتے ہیں​

کہیں چڑھ کر شرابِ عشق کے نشے اترتے ہیں​

خدا سمجھے یہ کیا صیّاد و گُلچیں ظلم کرتے ہیں​

گُلوں کو توڑتے ہیں، بلبلوں کے پر کترتے ہیں​

دیا دم نزع میں گو آپ نے، پر روح چل نکلی​

کسی کے روکنے سے جانے والے کب ٹھہرتے ہیں​

ذرا رہنے دو اپنے در پہ ہم خانہ بدوشوں کو​

مسافر جس جگہ آرام پاتے ہیں، ٹھہرتے ہیں​

نہ آ جایا کرو اغیار کی اُلفت جتانے میں​

وہ تم پر کیوں بھلا مرنے لگے فاقوں سے مرتے ہیں​

ہر اک موسم میں کشتِ آرزو سر سبز رہتی ہے​

تردّد غیر کو ہو گا، یہاں تو چین کرتے ہیں​

یہ جُوڑا کھولنا بھی ہیچ سے خالی نہیں ان کا​

اُلجھ جاتا ہے دل جب بال شانوں پر بکھرتے ہیں​

سمجھ لینا تمہارا اے رقیبو! کچھ نہیں مشکل​

خدا جانے یہ کس کا خوف ہے ہم کس سے ڈرتے ہیں​

تکلف کے یہ معنی ہیں سمجھ لو بے کہے دل کی​

مزا کیا جب ہمیں نے یہ کہا تم سے کہ؛ مرتے ہیں​


جوہر فرخ آبادی

مادھو رام جوہر

No comments:

Post a Comment