مِرے پہلو سے جو نکلے وہ مِری جاں ہو کر
رہ گیا شوق دلِ زار میں ارماں ہو کر
زیست دو روزہ ہے ہنس کھیل کے کاٹو اس کو
گُل نے یہ راز بتایا مجھے خنداں ہو کر
اشک شادی ہے یہ کچھ مژدہ صبا لائی ہے
شبنم آلودہ ہوا پھُول جو خنداں ہو کر
ذرۂ وادئ اُلفت پہ مناسب ہے نگاہ
فلکِ حُسن پہ خُورشید درخشاں ہو کر
شوخیاں اس نِگہ زیر مژہ کی مت پوچھ
دلِ عاشق میں کھُبی ہے پیکاں ہو کر
شدتِ شوقِ شہادت کا کہوں کیا عالم
تیغِ قاتل پڑی سر پہ مِرے احساں ہو کر
اب تو وہ خبط مِرے عشق کو کہہ کر دیکھیں
خود ہی آئینے کو تکنے لگے حیراں ہو کر
غلام بھیک نیرنگ
No comments:
Post a Comment