Tuesday 30 March 2021

قیام جس کا جہاں ہے وہیں کا دکھ سمجھے

 قیام جس کا جہاں ہے، وہیں کا دُکھ سمجھے

زمین زاد قط اس زمیں کا دکھ سمجھے

تو کیوں نہ مِل لیا جائے کسی سپیرے سے

امید ہے، وہ مِری آستیں کا دکھ سمجھے

مِرے علاوہ کوئی اور تو جہان میں ہو

جو ہر سوال کے آگے نہیں کا دکھ سمجھے

ہمارے چارہ گروں کو ہوئی ہے یوں تاخیر

کہیں کا دکھ تھا مگر وہ کہیں کا دکھ سمجھے

جو یوں ہُوا تو اسے سنگ کس نے کہنا ہے

کہ سنگ، خود پہ پٹختی جبیں کا دکھ سمجھے


نعیم عباس ساجد 

No comments:

Post a Comment