Wednesday, 31 March 2021

دھوپ جب ڈھل گئی تو سایہ نہیں

 دھوپ جب ڈھل گئی تو سایہ نہیں

یہ تعلق تو کوئی رشتہ نہیں؟

لوگ کس کس طرح سے زندہ ہیں

ہمیں مرنے کا بھی سلیقہ نہیں

خواب بھی اس طرف نہیں آتے

اس مکاں میں کوئی دریچہ نہیں

چلو مر کر کہیں ٹھکانے لگیں

ہم کہ جن کا کوئی ٹھکانا نہیں

منزلیں بھی نہیں مقدر میں

اور، پلٹنا ہمیں گوارا نہیں

دوسروں سے بھی ربط ضبط رکھیں

زندگی ہے کوئی جزیرہ نہیں

کب بھٹک جائے آفتاب حسین

آدمی کا کوئی بھروسہ نہیں


آفتاب حسین

No comments:

Post a Comment