Tuesday, 30 March 2021

سرد رشتوں کی برف پگھلی ہے

 سرد رِشتوں کی برف پِگھلی ہے

دھوپ مُدت کے بعد نکلی ہے

نیند آنکھوں سے یہ چُرائے گی

گشت پر یاد پھر سے نکلی ہے

ہر نئی لہر میں نیا پانی

وہ جو پچھلی تھی اب وہ اگلی ہے

رنگ وہ ہی بھرے گی دونوں میں

اپنی یادوں کی وہ جو تتلی ہے

پھوٹ پانی میں پڑ گئی ہے کیا

لہر دریا بنانے نکلی ہے

میرے جینے کو بس یہ ہے کافی

تُو ہے، بارش ہے اور تتلی ہے

بے خیالی میں گِر پڑی ہو گی

وہ نہیں جانتی وہ بجلی ہے

چاند کو چُگ گیا تھا اک پنچھی

چاندنی پھر کہاں سے نکلی ہے

وجہ تم ہی تھے میرے جینے کی

وجہ اب بھی کہاں یہ بدلی ہے

اُڑتی ہے غم لیے پروں پر جو

کیسی خوشرنگ سی وہ تتلی ہے

تجھ سے تصویر تیری اچھی ہے

بعد مُدت بھی وہ نہ بدلی ہے


پوجا بھاٹیہ

No comments:

Post a Comment