نظم کا آغاز کرتا ہوں
جہاں بھی ہو اُداسی
آ ہی جاتی ہے خبر مجھ تک
کسی تنہا مسافر کا
پہنچ جاتا ہے سب رنجِ سفر مجھ تک
جہاں جتنی بھی ہو تنہائی
اس کو دیکھ لیتا ہوں
چھُپی ہو جس قدر زیبائی
اُس کو دیکھ لیتا ہوں
میں سُن لیتا ہوں
تھوڑی یا بہت جیسی ہو خاموشی
سمجھ جاتا ہوں
موسم سے ہوا کی نرم سرگوشی
کسی اَن دیکھی دنیا کے
دریچے باز کرتا ہوں
میں یہ سب جمع کر کے
نظم کا آغاز کرتا ہوں
جاوید شاہین
No comments:
Post a Comment