اس کا انداز ظالمانہ تھا
پھر بھی خاموش سب زمانہ تھا
اس کے ہونے سے کیا ہوا لوگو
اس کا ہونا تو اک بہانہ تھا
وہ نہ آیا ہمارے پُرسے کو
ورنہ ہر گھر میں آنا جانا تھا
ڈھونڈتا پھر رہا ہوں میں اس کو
وہ ہی اک دوست تو پرانا تھا
جس کو ہم نے بنایا آئینہ
اس نے آئینہ یوں دکھانا تھا
بدگماں ہوئیے نہ یوں ہم سے
ہم کو مٹنا تھا مٹ ہی جانا تھا
اس کی باتیں عجیب لگتی ہیں
اس کا انداز والہانہ تھا
رئیس احمد
No comments:
Post a Comment