Wednesday 31 March 2021

پلایا اس نے جب سے شربت دیدار چٹکی میں

 پلایا اس نے جب سے شربتِ دیدار چٹکی میں 

نمایاں ہیں تبھی سے عشق کے آثار چٹکی میں 

خزاں دیدہ تھا اس سے پہلے میرا گلشنِ ہستی 

مرا باغِ تمنا ہو گیا گلزار، چٹکی میں 

کیا عرضِ تمنا میں نے جب وہ ہنس کے یہ بولے 

نہیں کرتے کسی سے عشق کا اظہار چٹکی میں

تمہاری اک نگاہِ ناز کے صدقے میں اے جاناں 

ہوئے ہیں خم نہ جانے کتنے ہی سردار چٹکی میں 

گیا وہ دور جب فرہاد چٹانوں سے لڑتا تھا 

مگر اب چاہتے ہیں سب یہ پا لیں پیار چٹکی میں

نماز و روزہ کی تلقیں گزرتی ہے گراں اس پر 

مگر شاپنگ کو ہو جاتی ہے وہ تیار چٹکی میں 

ہمارے رہنماؤں کے عجب اطوار ہیں ارماں 

کبھی انکار چٹکی میں، کبھی اقرار چٹکی میں


منیر ارمان نسیمی

No comments:

Post a Comment