بارِ کرم سے آپ کے سر زیرِ بار ہے
اپنی سبک سری سے بھی دل شرمسار ہے
زردی میں پتیوں کی کچھ ایسا نِکھار ہے
اس باغ کی خِزاں بھی بہ رنگِ بہار ہے
لے دے کے ایک زندگئ مستعار ہے
جس پر بھی تیرے عشق کا سودا سوار ہے
اس زندگی کے واسطے عقبیٰ نہ کر خراب
جس شے کا نام زیست ہے، ناپائیدار ہے
شرقی نباہِ یار سے آساں نہیں ہے کچھ
ہم ہیں وفا شعار، وہ غفلت شعار ہے
شرقی امروہوی
No comments:
Post a Comment