ہو تِرا عشق مِری ذات کا محور جیسے
اسی احساس کی میں ہو گئی خوگر جیسے
ایک ویرانی تِرے لہجے سے آئی مجھ تک
پھر وہی میرے اتر آئی ہو اندر جیسے
کوئی بھی کام میرے حق میں نہیں ہو پاتا
رُوٹھ کر بیٹھ گیا ہو یہ مقدر جیسے
وہ کوئی وقت تھا جب دل تھا بڑا نازک سا
اب تو سینے میں رکھا ہے کوئی پتھر جیسے
ہو تِرا حال میرے عشق میں ویسا زہرا
ہے مِرا حال تِرے ہجر میں ابتر جیسے
عروج زہرا زیدی
No comments:
Post a Comment