گزر رہا ہوں لگا تار اک اذیت سے
مجھے نکال کہانی کی مرکزیت سے
جو کہہ رہے میں عالم نہیں ہوں اُمّی ہوں
وہ لوگ خوفزدہ ہیں مِری وصیت سے
بدن کو پاک کیا وصل کی زکوٰة کے ساتھ
نماز ہجر پڑھی قربتن کی نیت سے
تھا ایک وقت کہ خطرہ تھا آدمیت کو
اب آدمی کو ہی خطرہ ہے آدمیت سے
ہم ایک ہوتے بھی کیسے کہ دین و دنیا نے
اسے رواج سے باندھا مجھے شریعت سے
منتظر مہدی
No comments:
Post a Comment