Wednesday, 31 March 2021

یہ حسرتیں بھی مری سائیاں نکالی جائیں

 یہ حسرتیں بھی مِری سائیاں نکالی جائیں 

کہ دشت ہی کی طرف کھڑکیاں نکالی جائیں 

بہار گزری قفس ہی میں ہاؤ ہو کرتے 

خزاؤں میں تو مِری بیڑیاں نکالی جائیں 

یہ شام کافی نہیں ہے سیہ لباسی کو 

شفق سے اور ذرا سُرخیاں نکالی جائیں

تو بچ رہیں گی برہنہ بدن کی سوغاتیں 

محبتوں سے اگر دُوریاں نکالی جائیں

یہ کیسی ضد ہے کہ پہلے بدن سے جاں نکلے 

پھر اس کے بعد سبھی سِسکیاں نکالی جائیں

یہ خوں بہا بھی ادا کر چکی ہے خوابوں کا 

تو میری آنکھ سے اب کِرچیاں نکالی جائیں

نکل پڑے گا مِرا سر بھی ساتھ ہی صادق

جو میرے سر سے کبھی پگڑیاں نکالی جائیں


اہتمام صادق

No comments:

Post a Comment