اچھا ہُوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا
قطرہ گُہر بنا جو سمندر سے کٹ گیا
زندہ جو بچ گئے ہیں سہیں نفرتوں کے دُکھ
اپنا گَلا تو پیار کے خنجر سے کٹ گیا
موسم بھی مُنفعل ہے بہت کیا بھروں اُڑان
رشتہ ہواؤں کا مِرے شہ پر سے کٹ گیا
پلکوں پر اپنی کون مجھے اب سجائے گا
میں ہوں وہ رنگ جو تِرے پیکر سے کٹ گیا
وہ میل جول حُسن و بصیرت میں اب کہاں
جو سلسلہ تھا پھُول کا پتھر سے کٹ گیا
میں دُھوپ کا حصار ہوں تو چھاؤں کی فصیل
تیرا مِرا حساب برابر سے کٹ گیا
کتنا بڑا عذاب ہے باطن کی کشمکش
آئینہ سب کا گرمیٔ جوہر سے کٹ گیا
سب اپنی اپنی ذات کے زِنداں میں بند ہیں
مدت ہوئی کہ رابطہ باہر سے کٹ گیا
دیکھا گیا نہ مجھ سے معانی کا قتلِ عام
چُپ چاپ میں ہی لفظوں کے لشکر سے کٹ گیا
اس کے انا کی وضع تھی سب سے الگ فضا
کیا شخص تھا کہ اپنے ہی تیور سے کٹ گیا
فضا ابن فیضی
No comments:
Post a Comment