Sunday 30 April 2023

ساز خاموش میں آواز کہاں سے لاؤں

 سازِ خاموش میں آواز کہاں سے لاؤں 


میرے ان کاکلِ برہم کی حکایت مت پوچھ 

آہ اس نالۂ پیہم کی حقیقت مت پوچھ 

دیکھ لے چشمِ بصیرت سے زمانے کا نظام 

مجھ سے اے دوست مِرے غم کی صداقت مت پوچھ 

لب رنگیں کا وہ اعجاز کہاں سے لاؤں 

ہماری چاہ صاحب جانتے ہیں

 ہماری چاہ صاحب جانتے ہیں

کہوں کیا آہ صاحب جانتے ہیں

جلانا عاشقوں کا جان اے جاں

قیامت واہ صاحب جانتے ہیں

بھلا دینے کی زلفوں میں دلوں کو

نرالی راہ صاحب جانتے ہیں

خواب پگھل کیوں جاتے ہیں

 خواب پگھل کیوں جاتے ہیں

چہرے جل کیوں جاتے ہیں

میں بدلا تب علم ہوا

لوگ بدل کیوں جاتے ہیں

ظالم کے حصے کے عذاب

آخر ٹل کیوں جاتے ہیں

قربتوں کے سارے لمحے دوریوں میں کھو گئے

 قربتوں کے سارے لمحے دوریوں میں کھو گئے

خواب کچھ آنکھوں میں لیکن جاتے جاتے بو گئے

یاد جب آئی تِری تو منتظر پہروں رہے

اپنی تنہائی سے آخر پھر لپٹ کر سو گئے

عہدِ طفلی! نوجوانی کھو گئی کس موڑ پر

حادثے ہونے تھے جتنے وہ تو آخر ہو گئے

کس طرح کیسے گزاری زندگی

 کس طرح کیسے گزاری زندگی

میں نہیں سمجھا یہ ساری زندگی

یاد رکھتے ہیں ضرورت کے لیے

بن گئی ہے کاروباری زندگی

عشق میں اک بے وفا کے واسطے

جیت کر بھی ہم نے ہاری زندگی

نہ گھوم دشت میں تو صحن گلستاں سے گزر

 نہ گھوم دشت میں تُو صحنِ گلستاں سے گُزر

جو چاہتا ہے بلندی تو کہکشاں سے گزر

زمیں کو چھوڑ کے ناداں نہ آسماں سے گزر

ضرورت اس کی ہے تو ان کے آستاں سے گزر

اسی سے تیری عبادت پہ رنگ آئے گا

جبیں جھکانا ہوا ان کے آستاں سے گزر

دل میں جو زخم ہے ان کو بھی ٹٹولے کوئی

 دل میں جو زخم ہے ان کو بھی ٹٹولے کوئی

اب یہ چاہت ہے کبھی پیار سے بولے کوئی

دیکھنا یہ ہے کہ پگھلتا ہے کہاں تک پتھر

دل میں بھڑکا تو گیا پیار کے شعلے کوئی

میں نے خاص اشکوں کو موتی کی طرح رکھا ہے

ان کو احساس کے دھاگے میں پِرو لے کوئی

ہم ایسے خانہ خرابوں کے روز شب کی بات

 ہم ایسے خانہ خرابوں کے روز شب کی بات

وہی دیارِ تمنا،۔ وہی گزر اوقات

برائے گِریہ ضروری ہے لمحہ گزرا ہوا

وگرنہ دربدری سے ملی ہے کس کو نجات

چراغِ خانۂ تنہائی، جل بُجھا آخر

جوازِ ترکِ سکونت ہزار ہا خدشات

ترے کرم سے تری بے رخی سے کیا لینا

 تِرے کرم سے تِری بے رخی سے کیا لینا

مِرے خلوص وفا کو کسی سے کیا لینا

سکونِ قلب نہ آسائش حیات نصیب

یہ زندگی ہے تو اس زندگی سے کیا لینا

تُو اپنی وضع کو رسوائے عرض حال نہ کر

کسی کو تیرے غم بے بسی سے کیا لینا

اسے مجھ سے محبت ہے نہیں ہے کیا پتہ کیا ہے

 اسے مجھ سے محبت ہے نہیں ہے کیا پتہ کیا ہے

خدایا! پھٹ رہا ہے سر مِرا یہ سلسلہ کیا ہے؟

میں اکثر سوچتی رہتی تھی آخر مفلسی کیا ہے

گنوایا اُس کو تو آخر سمجھ میں آ گیا کیا ہے

مجھے محفل میں ہنسنا ہے کہ تنہائی میں رونا ہے

مریضِ ہجر کی مولا بتا تُو ہی دوا کیا ہے؟ 

سوہان روح شورش انفاس چھین لے

 سوہانِ روح شورشِ انفاس چھین لے

اللہ، میری شدتِ احساس چھین لے

دل سے خیال و خواب کی بُو باس چھین لے

جو بے اساس ہو وہ ہر اک آس چھین لے

دے مجھ کو میرے آج میں جینے کا حوصلہ

کل کے حسین ہونے کا احساس چھین لے

ہم پرچم حیات اٹھائے ہوئے تو ہیں

 ہم پرچمِ حیات اٹھائے ہوئے تو ہیں

آنکھیں ستمگروں سے ملائے ہوئے تو ہیں

ہر چند زخم زخم ہیں یہ رہروانِ شوق

کانٹوں سے پیرہن کو سجائے ہوئے تو ہیں

بے چہرہ ہو کے رہ گئے فنکار آج کے

ہم اپنا ایک نقش بنائے ہوئے تو ہیں

طریق عشق میں برباد ہونا پڑتا ہے

 طریقِ عشق میں برباد ہونا پڑتا ہے

گلوں کی چاہ میں کانٹوں پہ سونا پڑتا ہے

بس ایک لمحۂ راز و نیاز کی خاطر

بشر کو مدتوں چھپ چھپ کے رونا پڑتا ہے

ضمیر بیچ کے منصب تو مل ہی جائے گا

وقار پہلے مگر اس میں کھونا پڑتا ہے

بس دیکھ رہا ہوں مرا پیمانہ کہاں ہے

 بس دیکھ رہا ہوں مِرا پیمانہ کہاں ہے

اللہ، مِری جرأتِ رِندانہ کہاں ہے

پڑ جائیں نہ اس پر غم دنیا کی نگاہیں

اے بُھولنے والے مِرا افسانہ کہاں ہے

اب مجھ کو دکھائے نہ خدا ہوش کا عالم

وہ پوچھ رہے ہیں مِرا دیوانہ کہاں ہے

Saturday 29 April 2023

اسم اطہر کا تصور مری بینائی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


اسمِ اطہرﷺ کا تصور مِری بینائی ہے

قلب نے ذکرِ محمدﷺ سے جلا پائی ہے

بزمِ کونین سجی آپﷺ کی آمد کےطفیل

بالیقیں گلشنِ ہستی میں بہار آئی ہے

دلکشی زیبِ چمن، نورِ مہ و مہر و نجوم

یہ ترےﷺ حُسنِ جہاں تاب کی رعنائی ہے

محمد نام ہے یا معجزہ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


محمدﷺ نام ہے یا معجزہ ہے

یہ اسمِ پاک جب بھی میں پکاروں

میرے دل اور جاں میں خوں کی لہریں

منور ہو کے ہر سُو پھیلتی ہیں

میرے سارے گناہوں کو چھپا کر

نئی کرنوں کی چادر ڈھانپتی ہیں

دو جہاں کی حقیقت پہ لاکھوں سلام

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

تضمین بر کلام احمد رضا خان بریلوی


دو جہاں کی حقیقت پہ لاکھوں سلام

مقصدِ عینِ قدرت پہ لاکھوں سلام

آیۂ حُسنِ فطرت پہ لاکھوں سلام

مصطفیٰؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

مصطفیٰؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

سارا کا مرتبہ ہے بہت ارفع و جلیل

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

در مدح سیدۂ کائنات


ساراؑ کا مرتبہ ہے بہت ارفع و جلیل

ہیں ایک نبیؑ کی ماں تو ہیں بے مثل و بے مثیل

مریمؑ کا اوج نسبت عیسیٰؑ سے بے عدیل

لیکن بتولؑ اپنے فضائل کی خود دلیل

ایسے شرف کہ مریمؑ و ساراؑ کہاں ہوئیں

اک دو نہیں، یہ گیارہ اماموں کی ماں ہوئیں

اے حبیب ذات اکرم یا محمد مصطفٰی

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


اے حبیبِ ذات اکرم یا محمد مصطفٰیﷺ

اے شہنشاہِ دو عالمﷺ رہنمائے ہر گدا

محرمِ رازِ الہٰی پیشوائے مُرسلانؑ

شافع روزِ جزا ہو مظہرِ نور خدا

ہیں تمہارے نور سے روشن ہوئے شمس و قمر

بخشیے دل کو ضیائے مرشد صدق و صفا

کبھی ہو یوں بھی دیار حبیب جاؤں میں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


کبھی ہو یوں بھی دیارِ حبیبﷺ جاؤں میں

وہاں پہ جاؤں تو پھر لوٹ کر نہ آؤں میں

جو خواب ہی میں کبھی قرب ان کا پاؤں میں

زبانِ اشک سے رودادِ دل سناؤں میں

یہ کائنات مِرے ساتھ رقص میں آئے

درِ حضورﷺ پہ جب نعت گنگناؤں میں

وہ ہنس پڑا جنوں یہ مچلنے لگی حیات

 وہ ہنس پڑا جنوں یہ مچلنے لگی حیات

ہاں ہاں یہی ادا،۔ یہی انداز التفات

وہ مسکرا رہے ہیں دھندلکوں کی اوٹ سے

یوں آزما رہی ہے مجھے تلخیٔ حیات

آئے ہیں وہ جنوں میں پشیمانیاں لیے

کیا کیا فریب دیتا ہے حسنِ تصورات

مکین چھوڑ کے خالی مکان کیا گئے ہیں

 مکین چھوڑ کے خالی مکان کیا گئے ہیں

کہ اپنے نام کی تختی کو بھی ہٹا گئے ہیں

وگرنہ، رنج تھا ایسا کہ دَم نکل جاتا

لرزتے ہونٹ مِرا حوصلہ بڑھا گئے ہیں

میں غمزدہ تِری تصویر کو بنا رہا ہوں

سو رنگ بھرتے ہوئے ہاتھ لڑکھڑا گئے ہیں

ہر صدی میں قصۂ منصور دہرایا گیا

 ہر صدی میں قصۂ منصور دہرایا گیا

سچ کہا جس نے اسے سُولی پہ لٹکایا گیا

ہم پہ ہی صدیوں سے ہیں ظلم و ستم جبر و الم

اور ہمیں ہی مُورد الزام ٹھہرایا گیا

ہر زمانے میں ملے گا اک صداقت کا نقیب

ہر زمانے میں اسے ہی طوق پہنایا گیا

زباں کا پاس ہے تو قول سب نبھانے ہیں

زباں کا پاس ہے تو قول سب نبھانے ہیں

اگر مُکرنے پہ آؤں تو سو بہانے ہیں

تیر نگاہ کے رستے سبھی نئے ہیں مگر

ہمارے طور طریقے سبھی پرائے ہیں

نہ راس آئی ہمیں آپ کی ادا کوئی

ستم ہے اس پہ کہ ہم آپ کے دِوانے ہیں

ناموسِ قلم فکر گہر بار نہ بیچو

ناموسِ قلم، فکرِ گُہر بار نہ بیچو

اے دیدہ ورو! غیرتِ فنکار نہ بیچو

چُپ رہنا تو ہے ظلم کی تائید میں شامل

حق بات کہو،۔ جرأتِ اظہار نہ بیچو

ورثہ ہے یہ نبیوں کا، امانت ہے خدا کی

جاں ہارنے والو! دلِ خوددار نہ بیچو

جو مہرباں الفاظ تھے کس نے سنے کس نے کہے

جو مہرباں الفاظ تھے کس نے سنے، کس نے کہے

یوں منتظر تیرے لئے، اے نامہ بر، ہم بھی رہے

تلوؤں کے چھالے کیا کہیں کیوں فاصلے بڑھتے رہے

دشتِ وفا کے مرحلے کس آس پر جی نے سہے

راتوں کے سائے رچ گئے پلکوں کی بھیگی چھاؤں میں 

اُجلی رُتوں کی چاہ میں آنکھوں کنول جلتے رہے

بلبل نوید لائی پھولوں کى طشترى میں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


بلبل نوید لائی پھولوں کى طشترى میں

دسویں بہار آئی صحرائے زندگى میں

گلشن میں گھومتى ہے شاخوں پہ جھومتى ہے

پھولوں کو چومتى ہے، بادِ سحر خوشى میں

مثلِ صبا پکاروں جا کر گلى گلى میں

فصلِ بہار آئی باغِ محمدىﷺ میں

عاشق جو محمد کے کسی سے نہیں ڈرتے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


عاشق جو محمدؐ کے کسی سے نہیں ڈرتے

جز ذاتِ مطہر کے کوئی دم نہیں بھرتے

کعبہ و مدینہ ہے گزرگاہِ محمدﷺ

سجدہ سُوئے مغرب ہیں اسی واسطے کرتے

نیت میں تصور نہ ہو گر روئے محمدﷺ

کیا خاک نمازی ہیں یونہی سر ہیں رگڑتے

آئینہ بھی آئینے میں منظر بھی اسی کا

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


آئینہ بھی، آئینے میں منظر بھی اُسیﷺ کا

ہے آنکھ کی پُتلی میں، سمندر بھی اسیﷺ کا

تاریکیٔ شب، صبح کا منظر بھی اسیﷺ کا

یہ لشکرِ مہر و مہ و اختر بھی اسیﷺ کا

جب چاہے فلک سر سے زمیں پاؤں سے چھینے

چادر بھی اسیؐ کی ہے یہ بستر بھی اسیﷺ کا

Friday 28 April 2023

ہر بات اک صحیفہ تھی امی رسول کی

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


ہر بات اک صحیفہ تھی اُمّی رسولﷺ کی 

الفاظ تھے خُدا کے ، زباں تھی رسولﷺ کی

وحدانیت کے پھول کھلے گرم ریت سے 

دی سنگِ بے زباں نے گواہی رسولﷺ کی 

بہبودی و فلاح کے جگنو نکل پڑے 

تاریکیوں میں جب کھلی مٹی رسولﷺ کی 

جو بے کسوں کا ہے اک سہارا در نبی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


جو بے کسوں کا ہے اک سہارا درِ نبیﷺ ہے

نہیں ہے جس کے بنا گزارا درِ نبیﷺ ہے

ریاضتوں کا صِلہ ملے بس اسی کی صورت

مِری محبت کا استعارہ درِ نبیﷺ ہے

ارے زمانے ہمیں یہاں کی دمک نہ دکھلا

تجھے کہا ناں کہ بس ہمارا درِ نبیﷺ ہے

اک چٹائی ہے مصلیٰ ہے کتب خانہ ہے

 اک چٹائی ہے مصلیٰ ہے، کتب خانہ ہے

رہنا سہنا تِرے درویش کا شاہانہ ہے

رونے والوں کی صدا آتی ہے دن رات مجھے

دل نہیں ہے میرے سینے میں، عزا خانہ ہے

صبح تک مجھ کو خرابے میں لیے پھرتا رہا

چاند سے کتنا کہا تھا، مجھے گھر جانا ہے

تیرے کوچے میں صنم طالب دیدار آیا

 تیرے کوچے میں صنم طالب دیدار آیا

لے کے ہاتھوں پہ نذر سر سرِ بازار آیا

دل میں تھا شوق لقا کا جو ہلایا زنجیر

تُو تو آیا نہ نظر میں بہ دلِ زار آیا

پئے تسلیم جھکا میں تیرے قدموں کی طرف

تُو تو بے رحم پکڑ ہاتھوں میں تلوار آیا

قصور سب ہے یہ نا معتبر علامت کا

 قصور سب ہے یہ نا معتبر علامت کا

الجھ کے رہ گیا مفہوم ہی عبارت کا

تمہارے سامنے منظر کہاں قیامت کا

عذاب سہتے کبھی کاش تم بھی ہجرت کا

قلم کے ساتھ زباں بھی تراش لو میری

یہ امتحان بھی لے لو مِری صداقت کا

بگڑی ہوئی جو بزم سخن تھی سنبھل گئی

 بگڑی ہوئی جو بزم سخن تھی سنبھل گئی

کیا بات تھی جو میری زباں سے نکل گئی

کیوں ہو گئی ہیں دونوں کی راہیں الگ الگ

میں وہ نہیں رہا، کہ یہ دنیا بدل گئی

وعدہ وہ اپنے آنے کا پورا نہ کر سکا

شاید شبِ فراق کوئی چال چل گئی

یہ شہر نارسائی ہے یہاں دستور گویائی نہیں

 یہ شہر نارسائی ہے 

یہاں دستور گویائی نہیں ہے 

یہاں لب کھولنا بھی جرم ہے 

یہاں پر جب کبھی آؤ 

خموشی کا ارادہ باندھ کر آؤ 

یہاں گونگے گھروں کی 

جہان ظلم میں انسانیت کی آس ہے علم

 جہانِ ظلم میں انسانیت کی آس ہے علم

بشر کی عظمت و توقیر کی اساس ہے علم

قبائے فکر و ہُنر، عقل کا لباس ہے علم

ہے ناشناس خدا جہل، حق شناس ہے علم

کبھی یہ دامنِ گل ہے کبھی گلاب ہے یہ

کبھی کتاب، کبھی صاحب کتاب ہے یہ

اب پرندوں میں ڈر ہے خون نہیں

 اب پرندوں میں ڈر ہے خون نہیں

اے خدا! رحم، شب شگون نہیں

ہم پتنگوں کا اپنا رونا ہے

روشنی ہے مگر سکون نہیں

سانس کیا موت ہی نہیں جن کو

خون ہی کیا جسے جنون نہیں

تخلیہ آؤ باہر سے اندر کو ہجرت کریں

 تخلیہ


آدمی اور سڑک

ایک طرفہ سڑک

جس میں یوٹرن کا کوئی رستہ نہیں


ایک دیوار ہے

ایک اونچی سی دیوار ہے

دوسری سمت کچھ بھی نہیں ہے

مسائل اپنے لیے میں بڑھا نہیں سکتا

مسائل اپنے لیے میں بڑھا نہیں سکتا

ہر ایک خوشۂ گندم جلا نہیں سکتا

قریب دور کی عینک سے دیکھتا ہوں مگر

قریب، دور کی عینک سے لا نہیں سکتا

غزل کا شعر ہی کافی ہے یاد میں اس کی

تمہارے کہنے پہ آنسو بہا نہیں سکتا

بعد تیرے دوستا کوئی نہیں

 بعد تیرے دوستا کوئی نہیں

زندگی سے واسطہ کوئی نہیں

میں یہاں سے کب کا اٹھ کے جا چکا

اب یہاں میرے سوا کوئی نہیں

کال پر پوچھا جب اس نے کون ہو

میں نے جھٹ سے کہہ دیا کوئی نہیں

دیکھو آقا کی گلی اور وہ روضہ دیکھو

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


دیکھو آقاﷺ کی گلی اور وہ روضہ دیکھو

اپنی نظروں کو سکوں بخش دو کعبہ دیکھو

میں دل و جان سے روضے پہ جُھکی جاتی ہوں

دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جلوہ دیکھو

مشکلوں میں بھی وہی عشق تجھے تھامے گا

غم سلامت رہے خوشیوں کا فرشتہ دیکھو

چاند تک پہنچا کوئی باب حرم تک پہنچا

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


چاند تک پہنچا کوئی بابِ حرم تک پہنچا

"میری معراج کہ میں تیرےؐ قدم تک پہنچا"

رائیگاں اس کی عبادت بھی ریاضت بھی ہوئی

تیری گلیوں سے جو ہٹ ہٹ کے حرم تک پہنچا

اپنی تقدیر پہ وہ لفظ ہے نازاں کتنا

نعتِ آقاﷺ کے لیے جو بھی قلم تک پہنچا

اسلام کی تعلیم ہے فرمان محمد

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


اسلام کی تعلیم ہے فرمان محمدﷺ

توحید کا نشہ مئے عرفانِ محمدﷺ

ملتی ہے یہاں روح کو برنائی و تسکیں

ہے سایۂ حق، سایۂ دامانِ محمدﷺ

ہر نقشِ قدم اس کا نشانِ سرِ منزل

سب قافلے والے ہیں ثناء خوانِ محمدﷺ

بانئ اسلام اے خورشید تاباں عرب

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


بانئ اسلام اے خورشید تاباں عرب

اے محمدؐ مصطفیٰؐ جانِ عرب، شانِ عرب

ظلِ اقداس میں پھلا پھولا گلستانِ عرب

جگمگایا نورِ وحدت سے بیابانِ عرب

آپؐ کے پیغام کی بنیاد تھی الہام پر

اک نئی دنیا بسا ڈالی خدا کے نام پر

روح کی بے چینی بھی مٹی ہے دل نے سکوں بھی پایا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


رُوح کی بے چینی بھی مٹی ہے، دل نے سکوں بھی پایا ہے 

تیریﷺ خاکِ پا کا ذرّہ تیرے نگر میں آیا ہے 

ریگِ رواں کے رُوپ میں برسوں مارا مارا پھرتا رہا 

اس کے نصیب کہ اب صرصر نے درپہ ترےؐ پہنچایا ہے 

جاہ و جلال و حُسن و جمال و منال و اہل و عیال

تیریؐ چاہ کی راہ میں اس نے ہر شے کو ٹھکرایا ہے 

Thursday 27 April 2023

کاش تم دیکھ سکتے

 کاش تم دیکھ سکتے 

میرے دل میں اُگے اس درخت  کو

جس کی ایک جڑ چنبے کی

دوسری پیلو کی

تیسری شاہ حسین کے مزار پرجھومتے بڑ کی 

اور چوتھی تمہاری محبت کی ہے


پروین طاہر

مگر ارضِ زلیخا میں اجارہ تہمتوں کا ہے

 اجارہ


کٹی اُنگلی

چُھری کی نوک سے لپٹا لہو

خوابوں کی تعبیریں

پھٹا کُرتہ

گواہی ہیں کہ یوسف پاک دامن ہے

اب بند ہو گیا ہے تجسس کا باب بھی

 اب بند ہو گیا ہے تجسس کا باب بھی

کتنا ہے لاجواب مِرا انتخاب بھی

صحرا نشانِ پا کے تحیر میں گم ہوا

کچے گھڑے میں ڈوب گیا ہے چناب بھی

کوئی گنہ بھی کر نہیں پائے بااہتمام

ان حسرتوں کا دینا پڑے گا حساب بھی

نظر کا مل کے ٹکرانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

 نظر کا مل کے ٹکرانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

محبت کا وہ افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

ستایا تھا ہمیں کتنا زمانے کے تغیر نے

زمانے کا بدل جانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

بھری برسات میں پیہم جدائی کے تصور سے

وہ مل کر اشک برسانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

خود اپنے آپ سے ہم بے خبر سے گزرے ہیں

 خود اپنے آپ سے ہم بے خبر سے گُزرے ہیں

خبر کہاں کہ تِری رہگزر سے گزرے ہیں

نفس نفس ہے معطر،۔ نظر نظر شاداب

کہ جیسے آج وہ خواب سحر سے گزرے ہیں

نہ پوچھ کتنے گُل و نسترن کا رُوپ لیے

بہارِ نو کے تقاضے نظر سے گزرے ہیں

طبیعت ان دنوں اوہام کی ان منزلوں پر ہے

 طبیعت ان دنوں اوہام کی ان منزلوں پر ہے

دل کم حوصلہ کاغذ کی گیلی کشتیوں پر ہے

گذشتہ موسموں میں بجھ گئے ہیں رنگ پھولوں کے

دریچہ اب بھی میرا روشنی کے زاویوں پر ہے

ہزاروں آبنوسی جنگلوں کا حسن کیا معنی

ہمیں جب سانس لینا کیمیائی تجربوں پر ہے

جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے

 جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے

جس شخص کو بھی دیکھیے تصویر یاس ہے

جب سے مسرتوں کی ہوئی جستجو مجھے

میں بھی اداس ہوں مِرا دل بھی اداس ہے

لاشوں کا ایک ڈھیر ہے گھیرے ہوئے مجھے

آباد ایک شہر مِرے آس پاس ہے

کشمیر زخموں سے اٹا ہوا بدن ہے

 کشمیر


پھولوں نے چھپا رکھا ہے، ورنہ

زخموں سے اَٹا ہوا بدن ہے

ہونٹوں پہ رکے ہوئے ہیں شعلے

آنکھوں میں جمی ہوئی جلن ہے

پھیلا ہوا ہاتھ برہمن کا

اس چاند کا مستقل گہن ہے

اب دل متحمل نہیں اس بار الم کا

 اب دل متحمل نہیں اس بارِ الم کا

ہر منظرِ زیبا پہ جو سایہ ہے ستم کا

اب جنتِ کشمیر میں بارود کی بُو ہے

شبنم کی جگہ پھول کے مکھڑے پہ لہو ہے

زخموں کی طرح دکھتے ہیں غنچوں کے دہن بھی

خنجر میں پرو دیتے ہیں کلیوں کے بدن بھی

غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں

 غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں

نہ ہو یہ کھیل تو پھر لُطف زندگی بھی نہیں

نہیں کہ دل میں تمنا مِرے کوئی بھی نہیں

مگر ہے بات کچھ ایسی کہ گُفتنی بھی نہیں

حُسن ہر شے میں ہے گر حُسن نگاہوں میں ہو

دل جواں ہو تو ہر اک شکل بھلی لگتی ہے

Wednesday 26 April 2023

بوجھ آنکھوں کا اب ہٹائے کوئی

 بوجھ آنکھوں کا اب ہٹائے کوئی

خواب کو چاہیے کہ آئے کوئی

تیرا آسیب ہو گیا ہے مجھے

مجھ میں رہتے ہوں جیسے سائے کوئی

اس کی سانسوں کی خیر ہو مولا

اس کی دھڑکن مجھے سنائے کوئی

تیرے اندر کی آنکھ مر چکی ہے

 لیکن او کانئر

لیکن او گیدی

تیرے اندر کی آنکھ مر چکی ہے

تیرے سینے میں

دل دانگی ہے

تم اس دانگی کی کالک

مرے لفظوں کی نبضیں کاٹ دی ہیں

مِرے لفظوں کی نبضیں کاٹ دی ہیں

ان آنکھوں نے وہ نظمیں کاٹ دی ہیں 

بہت افسوس ہوتا ہے کبھی تو

یہ کن لوگوں میں عمریں کاٹ دی ہیں

لگے رہنے دئیے کمرے میں جالے

دریچے سے تو بیلیں کاٹ دی ہیں 

دل میں رکھا تھا شرار غم کو آنسو جان کے

 دل میں رکھا تھا شرار غم کو آنسو جان کے

ہاں مگر دیکھے عجب انداز اس طوفان کے

اپنی مجبوری کے آئینے میں پہچانا تجھے

یوں تو کتنے ہی وسیلے تھے تِری پہچان کے

زخم خوں آلود ہیں آنسو دھواں دیتے ہوئے

یہ سہانے سے نمونے ہیں تِرے احسان کے

کتنے اخبار فروشوں کو صحافی لکھا

 کتنے اخبار فروشوں کو صحافی لکھا

نا مکمل کو بھی خادم نے اضافی لکھا

تُو نے بُھولے سے نہ سمجھی مِرے جذبے کی کسک

میں نے برسوں تِری آنکھوں کو غلافی لکھا

ہاتھ اٹھا سکتے تھے میرے بھی بغاوت کا علم

میں نے ہر ظلم کے خانے میں معافی لکھا

یہ کس بارود نے بچپن کی پگڈنڈی جلا ڈالی

 نوحہ 


یہ کس بارود نے بچپن کی پگڈنڈی جلا ڈالی

کہ جن پر بھاگتے ننھے سے پیروں نے نئی صبحوں کو چھونا تھا

کھلے افلاک پر ہنستے ستاروں سے لپٹنا تھا

تمہارا دکھ اکیلا دکھ نہیں ہے

ہوائیں آج بھی نوحہ کناں ہیں

ستمگروں کا بھرم پائمال کرتا رہے

 ستمگروں کا بھرم پائمال کرتا رہے

قفس میں رہ کے بھی پنچھی دھمال کرتا رہے

کوئی تو ہو جو مِری خامشی سمجھتا ہو

کوئی تو ہو جو مسلسل سوال کرتا رہے

کوئی تو ہو کہ جو سمجھے میں ایک شاعر ہوں

ہر ایک شعر پہ آہا، کمال کرتا رہے 

مرے خدایا بروز محشر مرا بھی تجھ سے سوال ہو گا

 مِرے خدایا بروزِ محشر مِرا بھی تجھ سے سوال ہو گا

کبھی تو آ کر ملوں گا تجھ سے، کبھی تو آخر وِصال ہو گا

ہے جس طرح کی گُھٹن یہاں پر کہ بس خدا کا ہی آسرا ہے

میں مر گیا تو یہ حکمِ ربی،۔ میں بچ گیا تو کمال ہو گا

میں چاہتا تھا پلٹ کے دیکھے تو اس کی آنکھیں بھی نم سی دیکھوں

میں سوچتا تھا کہ وقتِ رخصت اسے بھی تھوڑا ملال ہو گا

گھر سے چیخیں اٹھ رہی تھیں اور میں جاگا نہ تھا

 گھر سے چیخیں اٹھ رہی تھیں اور میں جاگا نہ تھا 

اتنی گہری نیند تو پہلے کبھی سویا نہ تھا 

نشۂ آوارگی جب کم ہوا تو یہ کھلا 

کوئی بھی رستہ مِرے گھر کی طرف جاتا نہ تھا 

کیا گِلہ اک دوسرے سے بے وفائی کا کریں 

ہم نے ہی اک دوسرے کو ٹھیک سے سمجھا نہ تھا 

خواب کا خواب حقیقت کی حقیقت سمجھیں

 خواب کا خواب حقیقت کی حقیقت سمجھیں 

یہ سمجھنا ہے تو پھر پہلے طریقت سمجھیں 

میں جواباً بھی جنہیں گالی نہیں دیتا وہ لوگ 

میری جانب سے اسے خاص محبت سمجھیں 

میں تو مر کر بھی نہ بیچوں گا کبھی یار کا نام 

آپ تاجر ہیں نمائش کو عبادت سمجھیں 

Tuesday 25 April 2023

چوکھٹ پہ تیری لطف صدا کا خرید کر

 چوکھٹ پہ تیری لطف صدا کا خرید کر

صدیاں خرید لی ہیں یہ لمحہ خرید کر

اس بے وفا سے پیار کی قیمت نہ لگ سکی

لائے گا میرے واسطے دنیا خرید کر

شہرِ ہنر سے خود ہی بڑی شدتوں سے ہم

لے آئے آنسوؤں کا یہ دریا خرید کر

محبت مختصر بھی ہو تو

 محبت مختصر بھی ہو تو

اس کو بھولنے میں عمر لگتی ہے

وہ چہرہ بھول جاتا ہے

مگر اس سے جُڑی دل کی سبھی یادیں

آکاس بیل کی مانند

روح کے شجر سے شاخ در شاخ

موسم صد رنگ کا جوہر کھلا

 موسم صد رنگ کا جوہر کُھلا

زخمِ دل کے ساتھ زخمِ سر کھلا

ہو گئی خوش بخت دستک، در کھلا

آج مدت بعد اس کا گھر کھلا

گر زمیں تیری نہیں تو نہ سہی

آسماں تو ہے تِرا سر پر کھلا

تعمیر نو قضا و قدر کی نظر میں ہے

 تعمیرِ نو قضا و قدر کی نظر میں ہے

آج ایک زلزلہ سا ہر اک بام و در میں ہے

کتنے چراغ امید کے جل جل کے بجھ گئے

کیا جانے کتنی دیر طلوعِ سحر میں ہے

ہر اک ہے سُوئے منزل جاناں رواں دواں

ہر ذرہ کائنات کا پیہم سفر میں ہے

ہم اندھیروں میں اجالوں کے سفیروں کی طرح

 ہم اندھیروں میں اجالوں کے سفیروں کی طرح

کچھ حوالوں کی طرح چند نظیروں کی طرح

وہ جو ڈوبے تھے مِرے سوچ سمندر میں کہیں

اب ابھر آئے ہیں بے چاپ جزیروں کی طرح

بندگی میں بھی ہیں اندازِ خدائی موجود

زندگی کون کرے ہم سے فقیروں کی طرح

پرانا دوست تھا دستک نئی تھی

 پرانا دوست تھا دستک نئی تھی

مِری دہلیز پر خوشبو رکھی تھی

کوئی تو بات اس کی مان لیتی

محبت عمر میں مجھ سے بڑی تھی

مِری آنکھوں پہ اس کا ہاتھ تھا اور

ہتھیلی پر سمندر کی نمی تھی

لوگ کچھ زندگی کے چکر میں

 لوگ کچھ زندگی کے چکر میں 

مر رہے ہیں اسی کے چکر میں 

کوئی مجھ سے بچھڑنا چاہتا ہے 

اور میں خود کشی کے چکر میں 

یار! تُو مجھ کو چھوڑ، اپنی بتا

آج تک ہے اُسی کے چکر میں؟ 

سزا کے بعد مجھے جب رہائی دینے لگا

 سزا کے بعد مجھے جب رہائی دینے لگا

میں صاف ہو کے بھی اس کو صفائی دینے لگا

سمجھ رہا تھا وہ اندھا مجھے محبت میں

پھر اس نے دیکھا کہ مجھ کو دکھائی دینے لگا

کُھلے ہیں رِزق کے مجھ پر ہزاروں دروازے 

میں ماں کے ہاتھ میں جب سے کمائی دینے لگا

دیوار پر لکھا نہ پڑھو اور خوش رہو

دیوار پر لکھا نہ پڑھو اور خوش رہو

کہتا ہے جو گجر نہ سنو اور خوش رہو

اپنائیت کا خواب تو دیکھو تمام عمر

بے گانگی کا زہر پیو اور خوش رہو

کانٹے جو دوستوں نے بکھیرے ہیں راہ میں

پلکوں سے اپنی آپ چنو اور خوش رہو

جنم لیا ہے جو انساں فروش نگری میں

 جنم لیا ہے جو انساں فروش نگری میں

سکُوت چھایا ہؤا ہے خموش نگری میں

جو منہ کی کھا کے پلٹتا ہے اور بستی سے

نکالتا ہے وہ سب اپنا جوش نگری میں

اگرچہ چہرے سے یہ سخت گیر لگتے ہیں

سبھی ہیں دوست صِفت برف پوش نگری میں

گناہوں سے مرا دامن بچانا یا رسول اللّه

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


گناہوں سے مِرا دامن بچانا یا رسول اللّهﷺ

مِری ہستی کو پستی سے اٹھانا یا رسول اللّهﷺ

میں روز و شب تمنائے زیارت میں تڑپتی ہوں

مِری سوئی ہوئی قسمت جگانا یا رسول اللّهﷺ

ہو عالم جب نزع کا اور دنیا چھوڑ کر جاؤں

مجھے توحید کا کلمہ پڑھانا یا رسول اللّهﷺ

آقائے دو عالم کی بستی ہی وہ بستی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


آقائے دو عالمؐ کی بستی ہی وہ بستی ہے

دن رات جہاں رحمت آ آ کے برستی ہے

رونق تِرے کوچے میں در اصل حقیقی ہے

ہر شے تِرے کوچے کی اللہ کو جچتی ہے

اک بار بلا لیجے، طیبہ کو دکھا دیجے

یہ آپ سمجھتے ہیں جو ہم پہ گزرتی ہے

سلامی مدحت شہ میں بڑی تاثیر ہوتی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


سلامی مدحتِ شہ میں بڑی تاثیر ہوتی ہے

یہاں توقیر ہوتی ہے، وہاں توقیر ہوتی ہے

چراغ، رہنمائے راہِ حق بنتا ہے ہر ذرہ

شہیدوں کی لحد کی خاک پر تنویر ہوتی ہے

فنا ان کے لیے کیسی جو حق پر جان دیتے ہیں

کہ ان کے خون سے دنیا نئی تعمیر ہوتی ہے

ماہ عرب اے ماہ عجم تو جس کا سہارا ہو جائے

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


اے ماہِ عرب اے ماہِ عجم، تُو جس کا سہارا ہو جائے 

یہ ساری خُدائی کیا شے ہے، اللہ بھی اُس کا ہو جائے 

کیا کہیے تِرے پھر آنے سے پہلے گلزارِ جہاں کیا جائے 

گل فرشِ کف پا بن جائیں، کلیوں کا بچھونا ہو جائے 

سو بار مدینے کو جاؤں، کب شوق کی سیری ہوتی ہے 

دل نذرِ مدینہ کر آؤں یا دل ہی مدینہ ہو جائے

نعت خوان سرور کون و مکاں ہوتا ہوں میں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


نعت خوان سرورؐ کون و مکاں ہوتا ہوں میں

دیکھنا روح الامیں سے ہمزباں ہوتا ہوں میں

رات دن جس آستاں پر ہیں ملائک سجدہ ریز

بارہا اوجِ تخیل سے وہاں ہوتا ہوں میں 

جب کبھی جاتے ہیں مل کر سُوئے طیبہ خوش نصیب

کارواں کے ساتھ گردِ کارواں ہوتا ہوں میں

Monday 24 April 2023

یہ دل کی اداسی پناہ مانگتی ہے

 یہ دل کی اداسی، پناہ مانگتی ہے

مِری بے سکونی، پناہ مانگتی ہے 

ہم اہلِ زمیں اتنے ظالم ہیں یا رب

کہ ہم سے زمیں بھی پناہ مانگتی ہے 

ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لے

یہ مخلوق تیری پناہ مانگتی ہے 

اٹھا لو گود میں مجھ کو

 یومِ مسیحا نرگس فاطمہ کے نام

نرگس فاطمہ


اٹھا لو (گود میں) مجھ کو

تھی اس کی آخری خواہش

میرے بازو میں اس کی 

چار سالہ انگلیاں 

پیوست ہیں اب تک

خبر ان کو نہ ہو کچھ بھی ہمیں تسکیں بھی مل جائے

 خبر ان کو نہ ہو کچھ بھی ہمیں تسکیں بھی مل جائے

صبا اے کاش ان کی زلف سے نکہت چرا لائے

کسی کو تو ملے تازہ و تر پھولوں کے گلدستے

مگر ہم نے تو مرجھائے ہوئے گل بھی نہیں پائے

ہمیں تشنہ رہے مے خانۂ ہستی میں اے ساقی

جناب شیخ نے مسجد میں ساغر خوب چھلکائے

ہے برقرار زمیں آسمان باقی ہے

 ہے برقرار زمیں آسمان باقی ہے

ہمارا اب بھی کوئی امتحان باقی ہے

ابھی تو اور ستم ہم پہ ڈھائے گی دنیا

یہ دیکھنے کے لیے آسمان باقی ہے

ہمارے بچوں کے رہبر کی اب نہیں حاجت

قدم قدم کا ہمارے نشان باقی ہے

پگھل کے درد نے بخشا ہے وہ مقام مجھے

 پگھل کے درد نے بخشا ہے وہ مقام مجھے

زمین کیا ہے، فلک نے کیا سلام مجھے

میں جب سے خواب تِرے نذر کر کے آیا ہوں

لہو کے اشک ہی رکھتے ہیں شادکام مجھے

مِرے وجود کو بکھرا کے ساری ہستی پر

کس اس طرح ہے کیا وقت نے غلام مجھے

ان کے اوصاف ہوں کس طرح سے بیاں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


ان کے اوصاف ہوں کس طرح سے بیاں کس طرح میں لکھوں مدحتِ مصطفٰیؐ

خاتم المرسلیںﷺ وہ ہیں شاہِ زماں سب سے اونچی یہاں عظمتِ مصطفٰیؐ

رات دن کا مجھے ہوش کیا رہے طیبہ جان کو یہ دل مچلتا رہے

سبز گنبد نگاہوں میں چھایا رہے جب سے دل میں بسی الفت مصطفٰیؐ

سارے عالم کے مختار ہیں آپؐ ہی سارے نبیوں کے سردار ہیں آپؐ ہی

اپنی اُمت کے غم خوار ہیں آپؐ ہی سارے جگ پہ عیاں شوکتِ مصطفٰیؐ

السلام اے رہبر دنیا و دیں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


السلام اے رہبر دنیا و دیں

السلام اے رحمۃ للعالمین

السلام اے فخر آدم السلام

السلام اے نازش روح الامیں

تیرا نقشِ پا چراغِ حق نما

ہر سخن تفسیرِ قرآنِ مبیں

عرش حق کی طرف جب چلے مجتبیٰ

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


عرش حق کی طرف جب چلے مجتبیٰؐ

جلوہ آراء تھا ہر سمت نور خدا

کہکشاں سے بنا اک نیا راستہ

فرش خاکی تا سدرة المنتہیٰ

احتراماً تھے ایستادہ جن و ملک

ؐنغمہ گر حور و غلماں تھے صل علیٰ

سر دفتر کون و مکاں شاہنشہ دنیا و دیں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


سر دفتر کون و مکاں شاہنشہ دنیا و دیں

احمدؐ، محمدؐ، مصطفیٰؐ، محبوب رب العالمیں

ہیں سالک راہِ صفا، ہیں مالکِ ملکِ خدا

ان کے لیے سب کچھ ہوا، خورشید، مہ، چرخِ مبیں

شمس الضحیٰ، بدرالدجیٰ، خیرالوریٰ، نورالہدیٰ

شانِ خدا، فضلِ الٰہ، شاہنشہِ کرسی نشیں

جلوۂ فطرت چشمۂ رحمت سیرت اطہر ماشاءاللہ

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


جلوۂ فطرت، چشمۂ رحمت، سیرتِ اطہر ماشاءاللہ

حسنِ مکمل، فیضِ مسلسل، خیرِ سراسر ماشاءاللہ

سب نے سنا اعلانِ رسالتؐ، تقویٰ ہے معیارِ فضیلت

یکساں ٹھہرے ابیض و اسود، اصفر و احمر ماشاءاللہ

صورتِ فاتح غالب ہو کر، داخلِ مکہ جب ہوئے سرورؐ

ناقے پہ آئے، سر کو جھکائے حمد لبوں پر ماشاءاللہ

Sunday 23 April 2023

خدارا کفر مت تولو بہارو جھوٹ مت بولو

 بہارو جُھوٹ مت بولو

کسی جبل بلند قامت کی رفعت سے ذرا اونچی

ہوائے یاسمن کے عطر سے ملبوس کو چُھوتی

ستاروں سے کہیں اجمل

ستم ایجاد چشم ناز کا ہیبت تماشا

ہاتھ پر دھر کر

یہ کیسی رُت زمیں پر آن اتری ہے

کسی خطا کی طرح تو کبھی سزا کی طرح

 کسی خطا کی طرح تو کبھی سزا کی طرح

زندگی ہم نے گزاری ہے بد دعا کی طرح

عجیب درد کا عالم ہے، کیا کِیا جائے

کلیجہ چاک ہُوا جاتا ہے قبا کی طرح

تمہارے بعد نہ رستہ نہ کوئی منزل ہے

بھٹک رہا ہوں کسی ان سُنی صدا کی طرح

اسی صدمے سے مر جانا ہے میں نے

 اسی صدمے سے مر جانا ہے میں نے 

تجھے مُشکل سے پہچانا ہے میں نے 

اکیلا ہوں یہاں میں آنکھوں والا 

کئی اندھوں سے ٹکرانا ہے میں نے 

بُڑھاپے میں کروں گا عشق جا کر 

بُجھے شُعلوں کو دہکانا ہے میں نے 

خاکستر پروانہ سر بزم اڑا کر

 والصبح اذا تنفس


خاکسترِ پروانہ سرِ بزم اُڑا کر

گزری ہے صبا شمع کے شعلے کو بُجھا کر

معمور فضا ہو گئی آوازِ اذاں سے

پیمانہ سنبھالا نہ گیا پیرِ مُغاں سے

اِک چادرِ رنگیں سے شفق سایہ فگن ہے

یہ رات کی میّت کے لیے سُرخ کفن ہے

پانچ دس پیسے چار آنے تھے

  پانچ دس پیسے، چار آنے تھے

وہ زمانے بھی کیا زمانے تھے

جیب میں ہونگے ایک دن سو بھی

اُن دنوں خواب یہ سہانے تھے

یار، بوتل، کباب اور قلفی

کبھی قارون کے خزانے تھے

اول ہے سب رسولوں میں نمبر رسول کا

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


اول ہے سب رسولوں میں نمبر رسولﷺ کا

ثانی کوئی نہیں پسِ داور رسولﷺ کا

اب تک نشاں قمر میں ہے انگشت شاہؐ کا

یہ معجزہ جہاں میں ہے اظہر رسولﷺ کا

مصر و عرب میں روم میں، ایران و ہند میں

پھیلا جہاں میں علم سراسر رسولﷺ کا

شہنشاہ دو عالم سید کل انبیاء ہستی

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

فارسی کلام


شہنشاہ دو عالمﷺ سید کل انبیاء ہستی

بہ ایں دنیائے امکاں مظہرِ نورِ خدا ہستی

توئیؐ سید، توئیؐ آقا، توئیؐ خواجہ، توئیؐ مولا

بحقِ مرشد، بدلِ ہادئ امامِ اتقیاء ہستی

توئیؐ شمس الضحٰی، بدرالدجٰی، در چشمِ حق بیناں

ہمہ قرآں، ہمہ یٰسین، ہمہ قرآں نما ہستی

رخ مصطفٰے کا جمال اللہ اللہ

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


رخ مصطفٰےؐ کا جمال اللہ اللہ

زباں کا وہ حسنِ مقال اللہ اللہ

ہے جبریلؑ در کا غلام اللہ اللہ

نبوت کا یہ اہتمام اللہ اللہ

نگاہوں کا سکہ دلوں پر مسلط

جمال اللہ اللہ، جلال اللہ اللہ

میرے سر آنکھوں پہ فرمان رسول عربی

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


میرے سر آنکھوں پہ فرمان رسول عربیﷺ

جان و دل دونوں ہی قربان رسول عربیﷺ

مسلموں تک ہی نہیں فیض رسالت محدود

عام ہے خلق پر احسان رسول عربیﷺ

روم اعداء کا ہمیشہ ہوا ثابت باطل

رحمت حق تھی نگہبان رسول عربیﷺ

پہنچ کے طیبہ میں یا الٰہی نظر یہ کیا چیز آ رہی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


پہنچ کے طیبہ میں یا الٰہی نظر یہ کیا چیز آ رہی ہے

مِری نگاہوں میں آج کیسی حسین دنیا سما رہی ہے

فزوں ہوا شوق کا تقاضا، تڑپ رہی ہے ہر اک تمنا

چلو مدینے، چلو مدینے، یہ دل سے آواز آ رہی ہے

نوازنے کے لیے وہ دیکھو کہ اپنے لاچار بیکسوں کو

کسی کی بخشش پکارتی ہے کسی کی رحمت بلا رہی ہے

Saturday 22 April 2023

کس لیے کرتا رہوں خون کو پانی میں بھی

 کس لیے کرتا رہوں خون کو پانی میں بھی

زندگی فاحشہ کب ہے نہ ہوں زانی میں بھی

ہم سے لغزش جو ہوئی ہے تو کریں توبہ بھی

تم بھی حوا سے ہو، آدم سے ہوں جانی میں بھی

رکھ کے ہر جُرم مِرے سر وہ سُبکدوش ہوا

اس کو لکھ جاؤں یہ دُشنام جوانی میں بھی

دریچہ وا کیا ہم نے تو جھونکا اولیں اٹھکیلیاں کرتا

 دریچہ


دریچہ وا کیا ہم نے

تو جھونکا اولیں اٹھکیلیاں کرتا ہمیں پہنچا

بہت پُر شوق خوشبو یافتہ تھا

تبسم ریز پُروا تھی

کہ جس کے پنکھ پر ٹھہرا ہوا حیرت ادب پارہ

ہر سمت عید جشن محبت منائے ہے

احباب کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں


 بچھڑے ہوؤں کو بچھڑے ہوؤں سے ملائے ہے

ہر سمت عید جشن محبت منائے ہے

انسانیت کی پینگ محبت بڑھائے ہے

موسم ہر اک امید کو جُھولا جُھلائے ہے

بارش میں کھیت ایسی طرح سے نہائے ہے

رونق ہر اک کسان کے چہرے پہ آئے ہے

آؤ مل لو عید یہ موقع نہیں تکرار کا

 احباب کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں


آج کے دن صاف ہو جاتا ہے دل اغیار کا

آؤ مل لو عید، یہ موقع نہیں تکرار کا

رُخ پہ گیسُو ڈال کر کہنا بُتِ عیار کا

وقت دونوں مل گئے منہ کھول دو بیمار کا

جاں کنی کا وقت ہے پھِرتی نہ دیکھو پُتلیاں

تم ذرا ہٹ جاؤ، دم نکلے گا اب بیمار کا

سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں

احباب کو عید مبارک

جشن عید


سبھی نے عید منائی مِرے گلستاں میں

کسی نے پھول پِروئے کسی نے خار چُنے

بنامِ اذنِ تکلم،۔ بنامِ جبرِ سکوت

کسی نے ہونٹ چبائے کسی نے گیت بُنے

بڑے غضب کا گلستاں میں جشنِ عید ہوا

کہیں تو بجلیاں کوندیں، کہیں چنار جلے

مجھ سے ہنستے ہوئے جس دم وہ ملا عید کے دن

مجھ سے ہنستے ہوئے جس دم وہ مِلا عید کے دن

کُنج دل میں مِرے اک پھول کِھلا عید کے دن

کیا خبر کل تجھے کس بات پہ رونا پڑ جائے

خوب جی بھر کے تُو خوش ہو لے دِلا! عید کے دن

جانے کیا سوچ کے سینے سے لگایا اس کو

بر سرِ درِ راہگزر جو بھی مِلا عید کے دن

ہم خدا سے شکوہ کرتے تھے اکیلے رہ گئے

 ہم خدا سے شکوہ کرتے تھے اکیلے رہ گئے

اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اچھے رہ گئے

حادثے کے وقت جب اس نے پکارا؛ کوئی ہے

سب مدد کے واسطے اوروں کو کہتے رہ گئے

سوتے سوتے چھوڑ کر کوئی گیا تو اگلی صبح

نیند پوری ہو گئی، اور ہم ادھورے رہ گئے

توئی جان دو عالم نور یزداں یا رسول اللہ

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

فارسی کلام


توئیؐ جانِ دو عالم نورِ یزداں یا رسول اللہﷺ

توئیؐ سِرِ وجودِ بزمِ امکاں یا رسول اللہﷺ

توئیؐ خاتم، توئیؐ سید، توئیؐ سرور، توئیؐ آقا

توئیؐ سلطانِ عالم، شاہِ شاہاں یا رسول اللہﷺ

جمیلِ عالمِ امکاں، جمالِ حضرتِ یزداں

توئیؐ حسنِ دو عالم، جانِ جاناں یا رسول اللہﷺ

اے جانِ حزیں چل دیکھ ذرا وہ روضۂ پاک مدینے میں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


اے جانِ حزیں چل دیکھ ذرا وہ روضۂ پاک مدینے میں

جس روضے کی تنویر سے ہے اک نور جہاں کے سینے میں

دہلیز پہ انﷺ کی سجدہ کر اور عمرِ خضرؑ کا طالب ہو

مصروف ابد تک رہنے دے، دنیا کو مرنے جینے میں

توحید کی مے کا لطف اٹھا، ایمان کے جام و مینا سے

جب ساقی ساقئ کوثرﷺ ہو پھر عذر بھلا کیا پینے میں

آؤ ہم سب مل کے بیٹھیں پیار کی باتیں کریں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


آؤ ہم سب مل کے بیٹھیں پیار کی باتیں کریں

کچھ عرب میں پریم کے اوتار کی باتیں کریں

فخر آدم احمدؐ مختارﷺ کی باتیں کریں

دو جہاں کے سرور و سردار کی باتیں کریں

پریم کی گنگا بہائی جس نے ریگستان میں

روح تازه پھونک دی مٹتے ہوئے ایمان میں

گر قوت مومن ہے تو شمشیر و سناں سے

 گر قوتِ مؤمن ہے تو شمشیر و سناں سے

مقصود نہیں اس کو کوئی سُود و زیاں سے

جاں جس کی امانت ہے اسے دینی پڑے گی

اور جرأتِ کردار تو ظاہر ہے قراں سے

ہے نعرۂ توحید تِرا اللہ اکبر

ظاہر ہے تِرا جوش تو واعظ کے بیاں سے

Friday 21 April 2023

چلتے رہے تو ذات کے کھنڈر بھی آئیں گے

 چلتے رہے تو ذات کے کھنڈر بھی آئیں گے

رستے میں ریگزار، سمندر بھی آئیں گے

آئیں گے بادشہ بھی ملاقات کو تِری

نذر و نیاز دینے قلندر بھی آئیں گے

دھونی رما کے بیٹھ کسی دشتِ نور میں

جوگی بھی سادھو، سنت، سکندر بھی آئیں گے

توڑ دیا زنجیروں کو اور صحرا صحرا دیکھ لیا

 توڑ دیا زنجیروں کو، اور صحرا صحرا دیکھ لیا

وحشی نے جب اک دن اپنے خواب میں رستہ دیکھ لیا

ایک دریچہ میرے دکھ سکھ بانٹنے کو آ پہنچا ہے

دیواروں کے بیچ جو مجھ کو سہما سہما دیکھ لیا

تجھ کو دیکھا ہے تو دیکھا ایک جہان نیا میں نے

لیکن اب تک سوچ رہا ہوں، جانے کیا کیا دیکھ لیا

رت بدلتی ہی نہیں موسم بدل جانے کے بعد

 رُت بدلتی ہی نہیں موسم بدل جانے کے بعد

رات ڈھلتی ہی نہیں ہے دن نکل آنے کے بعد

نیند آتی ہے تھکن سے خواب میں ڈرتے ہیں لوگ

اور مسلسل بے یقینی آنکھ کُھل جانے کے بعد

موسم بے رنگ میں، شہرِ شکستہ خواب میں

کچھ نہیں بدلا مکینوں کے بدل جانے کے بعد

نہیں معلوم پائیں گے سکوں اہل جہاں کب تک

 نہیں معلوم پائیں گے سکوں اہلِ جہاں کب تک

خدا جانے رہے گا اس زمیں پر آسماں کب تک

یہ افسانہ ابھی تو زیرِ عنوانِ کرم بھی ہے

سنائے جاؤں میں ان کے ستم کی داستاں کب تک

قفس میں تو مجھے جب تک بھی رہنا ہو مگر یا رب

تصور میں مِرے جلتا رہے گا آشیاں کب تک

لہلہاتی ہوئی شاداب زمیں چاہتے ہیں

  لہلہاتی ہوئی شاداب زمیں چاہتے ہیں

اور کیا تجھ سے ترے خاک نشیں چاہتے ہیں

ہم کو منظور نہیں پھر سے بچھڑنے کا عذاب

اس لیے تجھ سے ملاقات نہیں چاہتے ہیں

کب تلک در پہ کھڑے رہنا ہے، ان سے پوچھو

کیا وہ محشر کا تماشہ بھی یہیں چاہتے ہیں

ہے مختصر حیات عبادت کے واسطے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


ہے مختصر حیات عبادت کے واسطے

خلد بریں میں انِ کی قرابت کے واسطے

پایا ہے ہم نے جسم عبادت کے واسطے

ذکر نبیؐ ہے اس میں حرارت کے واسطے

لمحے میں پورے چاند کو، دو لخت کر دیا

کافی سے تھا زیادہ، شہادت کے واسطے

بڑی تکلیف دہ مجھ کو جدائی ہے محمد کی

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


بڑی تکلیف دہ مجھ کو جدائی ہے محمدﷺ کی

درِ اقدس پہ حسرت کھینچ لائی ہے محمدﷺ کی

فرشتے بھی، بشر بھی، دونوں انؐ پر فخر کرتے ہیں

زمیں سے عرشِ اعظم تک رسائی ہے محمدﷺ کی

جو یہﷺ پیدا نہ ہوتے تو نہ ہوتا کوئی بھی پیدا

خدا کی شان ہے گویا خدائی ہے محمدﷺ کی

کمال کچھ نہ رہا صاحب کمال کے بعد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کمال کچھ نہ رہا صاحبِ کمال کے بعد

ہر آئینہ ہوا دُھندلا تِرےؐ جمال کے بعد

تِریؐ عطا کی ہے ہم عاصیوں پہ یوں تقسیم

کچھ انفعال سے پہلے، کچھ انفعال کے بعد

دل انؐ کا گھر ہے وہ اس گھر میں آتے رہتے ہیں

کبھی خیال سے پہلے، کبھی خیال کے بعد

یہ مدعائے مشیت تھا اس کی بعثت سے

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


یہ مدعائے مشیت تھا اسؐ کی بعثت سے

کہ آدمی کا تعارف ہوا اپنی عظمت سے

کتابِ زیست معطر ہے اسؐ کی سیرت سے

سبق ملا یہ زمانے کو اسؐ کی ہجرت سے

عزیز تر ہے وطن سے بھی گوہرِ مقصود

’بہ روحِ اعظم و پاکش دُرودِ نامحدود‘

کون پانی کو اڑاتا ہے ہوا کے دوش پر

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


کون پانی کو اُڑاتا ہے ہوا کے دوش پر

کس نے بخشی پیڑ کو آتش پذیری سوچیے

کس کے لطفِ خاص سے نغمہ فشاں ہے سانس کی

دھیمی دھیمی، دھیری دھیری یہ نفیری سوچئے

کس کی شانِ کن فکاں سے پھوٹتا ہے خاک سے

یہ گیاہِ سبز کا فرشِ حریری سوچئے

وطن سے پیار ہے جن کو انہیں سب سے محبت ہے

انہیں سب سے محبت ہے


وطن سے پیار ہے جن کو انہیں سب سے محبت ہے

وہ کرتے ہیں محبت اپنے گھر کے رہنے والوں سے

انہیں آرام دے کر خود مصیبت سہنے والوں سے

بزرگوں سے عقیدت ہے انہیں بچوں سے الفت ہے

غریبوں سے امیروں سے انہیں سب سے محبت ہے

وطن سے پیار ہے جن کو انہیں سب سے محبت ہے

Thursday 20 April 2023

تم نہ ہو گے تو عید کیا ہو گی

 تمام احباب کو عید مبارک 


تم نہ ہو گے تو عید کیا ہو گی


آنے والی رُتوں کے آنچل میں

کوئی ساعتِ سعید کیا ہو گی

رات کے وقت رَنگ کیا پہنوں

روشنی کی کلید کیا ہو گی

مسند ناز پہ جب وہ ستم ایجاد آیا

تمام احباب کو عید مبارک 


مسندِ ناز پہ جب وہ ستم ایجاد آیا

ٹوٹ کر ایک جہان برسرِ فریاد آیا

ان کی محفل میں یہ جانے کا نتیجہ نکلا

میں گیا شاد، مگر لَوٹ کے ناشاد آیا

ایک جان اور دو قالب بھی رہے ہیں ہم تم

ہائے کیا دور تھا تم کو بھی کبھی یاد آیا

آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے

تمام احباب کو عید مبارک 


آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبحِ عید ہے

راگ ہے مے ہے چمن ہے دلربا ہے دید ہے

دل دِوانہ ہو گیا ہے دیکھ یہ صبحِ بہار

رسمسا پھولوں بسا آیا آنکھوں میں نیند ہے

شیر عاشق آج کے دن کیوں رقیباں پے نہ ہوں

یار پایا ہے بغل میں خانۂ خورشید ہے

کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی

تمام احباب کو عید مبارک 


کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی

ہم کو اگر میسّر جاناں کی دید ہوتی

قیمت میں دید رخ کی ہم نقد جاں لگاتے

بازارِ ناز لگتا، دل کی خرید ہوتی

کچھ اپنی بات کہتے، کچھ میرا حال سنتے

ناز و نیاز کی یوں گفت و شنید ہوتی

دل روح تک اداس ہے اور چاند رات ہے

تمام احباب کو عید مبارک 


 دل روح تک اداس ہے اور چاند رات ہے

اک بد ترین یاس ہے، اور چاند رات ہے

وہ آخری ٹرین میں بیٹھا ہوا ہو گا

پر یہ تو بس قیاس ہے اور چاند رات ہے

دل کا سکوں، جگر کا سکوں، ذہن کا سکون

سب کچھ تو اس کے پاس ہے اور چاند رات ہے

جبر کی شدت صبر مٹائے چوری ہے

 جبر کی شدت صبر مٹائے چوری ہے

بھوک جو ایسے ہاتھ بڑھائے چوری ہے

چھوٹا سا معصوم پرندہ کیا جانے

دانہ اپنے نام کا کھائے چوری ہے

بھوک نہ دیکھے جوٹھے بھات کو سنتے تھے

اب یہ منظر سامنے آئے چوری ہے

ہر نیا موڑ ہے جادہ مری منزل تو نہیں

 ہر نیا موڑ ہے جادہ مِری منزل تو نہیں

جو تمنا ہے مِرے دل میں وہ حاصل تو نہیں

کس لیے آپ کو اندیشۂ رسوائی ہے

درمیاں آپ کے میرے کوئی حائل تو نہیں

میری بربادی کا احساس تجھے کیسے ہوا

تیرے پہلو میں مِرا ٹوٹا ہوا دل تو نہیں

اسے بھی یاد تو ہوں گے وہ دن وہ ماہ و سال

 قرب


اسے بھی یاد تو ہوں گے وہ دن وہ ماہ و سال

کہ جب دھڑکتا ہی رہتا تھا دل میں شوقِ وصال

وہ گفتگو کے لیے ڈھونڈنا کہیں موضوع

وہ اس کو پاس بٹھانے میں لاکھ قیل و قال

وہ ایک آہٹِ مانوس کی طلب میں ہمیں

کہاں کہاں پہ لیے گھومتی تھی چشمِ خیال

کبھی کسی کو جو دیکھا کسی کی بانہوں میں

 کبھی کسی کو جو دیکھا کسی کی بانہوں میں

تجھی کو یاد کیا دل نے سرد آہوں میں

اسی امید پہ دنیا کو ہم نے چھوڑ دیا

سکون دل کو ملے گا تِری پناہوں میں

بہت حسین تھا بچپن کا وہ زمانہ بھی

کوئی حسین کلی تھی مِری نگاہوں میں

ہم اس کو بھول بیٹھے ہیں اندھیرے ہم پہ طاری ہیں

 ہم اس کو بھول بیٹھے ہیں اندھیرے ہم پہ طاری ہیں

مگر اس کے کرم کے سلسلے دنیا پہ جاری ہیں

کریں یہ سیر کاروں میں کہ اڑ لیں یہ جہازوں میں

فرشتہ موت کا کہتا ہے یہ میری سواری ہیں

نہ ان کے قول ہی سچے نہ ان کے تول ہی سچے

یہ کیسے دیش کے تاجر ہیں کیسے بیوپاری ہیں

سب سے الگ ہی لے تو ہے میرے جناب کی

 سب سے الگ ہی لَے تو ہے میرے جناب کی

لگتا نہیں وہ تار کسی بھی رباب میں

ہائے! جو اب مزہ ہے مِری فیس بک میں

ملتا نہیں ہے وہ تو کسی بھی کتاب میں

ساقی تو کر کچھ ایسا رہے ہوش نہ مجھے

دیکھوں میں اس کا چہرہ ہی تیری شراب میں

اس کی انگليوں سے رنگ نکلتے ہیں

 اس کی

انگليوں سے

رنگ نکلتے ہیں

ایسے رنگ

جو تصویر ہو جائیں تو

باتیں کرتے ہیں

اکھٹے دن گزاریں گے اکھٹے رات دیکھیں گے

 اکھٹے دن گزاریں گے، اکھٹے رات دیکھیں گے

تمہیں پہروں چُھویں گے اور تمہارے ہاتھ دیکھیں گے

ابھی تو تُو میسر ہے، مگر اے دوست تیرے بعد

ہماری کس طرح ہو گی گزر اوقات؟ دیکھیں گے

کہ ہم نے روزنوں کے سامنے کھِلتے ہوئے منظر

اِسی امید پر چھوڑے تمہارے ساتھ دیکھیں گے

یہ کب کہا کہ آپ ابھی بات کیجئے

 یہ کب کہا کہ آپ ابھی بات کیجیۓ

جب دل کرے جناب! تبھی بات کیجیۓ

مصروف ہیں ہم آپ ہی کے انتظار میں

ہم گوش بر آواز، اجی! بات کیجیۓ

میرا کیا پوچھتے ہیں صنم، میری طرف سے

یہ لیجیۓ جناب! ابھی بات کیجیۓ

کھیت پیاسا ہے تو بادل کو بلایا جائے

 کھیت پیاسا ہے تو بادل کو بلایا جائے 

ابر اُمڈے تو کوئی خواب اگایا جائے

وہ کوئی راز ہے ایسا جو چھپایا جائے

وہ تو اک خواب ہے من میں جو سمایا جائے

رات سوتی ہے تو سانسیں نہیں روکی جاتیں 

آنکھ اندھی ہو تو سورج نہ بجھایا جائے

Wednesday 19 April 2023

رات دن ایک اذیت سے ہمیں باندھ دیا

 رات دن ایک اذیت سے ہمیں باندھ دیا 

زندگی تُو نے محبت سے ہمیں باندھ دیا 

خواب در خواب کئی آئینے آنکھوں میں کُھلے

تُو نے کس رنگ کی حیرت سے ہمیں باندھ دیا 

اک ذرا زیست میں باقی تھے بہت کام پڑے

اور تُو ہے کہ مسافت سے ہمیں باندھ دیا 

دن کے اندر سے جھانکتی ہوئی رات

 ابدی نیند 


دن کے اندر سے جھانکتی ہوئی رات

رات کے پہلو میں چُھپا غم

غم کے اندر ہی کُرلاتا ہوا درد

اور درد کی آخری حد کے پار کھڑی نیند 

ابدی نیند

تمہارے ہوتے ہوئے غیر کا دلاسہ ہے

 تمہارے ہوتے ہوئے غیر کا دلاسہ ہے

تمہیں پتہ ہے یہ کتنا بڑا طمانچہ ہے

تمام شہر مسیحا ہے اور تاک میں ہے

مگر یہ زخم مِرا آخری اثاثہ ہے

تِرے وجود سے آتی ہوئی مہک کی قسم

یہ دیوی لفظ تِرے حسن کا خلاصہ ہے

نئے انداز سے وہ ہر ستم ایجاد کرتے ہیں

 نئے انداز سے وہ ہر ستم ایجاد کرتے ہیں

بظاہر داد ہوتی ہے، مگر بیداد کرتے ہیں

نظر کے سامنے جان نظر جب تم نہیں ہوتے

تمہاری یاد سے ہم بزمِ دل آباد کرتے ہیں

چمن والوں کی جان و دل پہ وہ گزری بہاروں میں

چمن والے بہاروں میں خزاں کو یاد کرتے ہیں

اچھائی سے ناتا جوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا

 اچھائی سے ناتا جوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا

الٹے سیدھے دھندے چھوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا

مستقبل کی تیاری کرنے میں ہے ہشیاری

وقت سے آگے تو بھی دوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا

دیواریں جو حائل ہیں تیری ہار پہ مائل ہیں

دیواروں سے سر مت پھوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا

کبھی جو تم سے ملاقات ہو گئی ہوتی

 کبھی جو تم سے ملاقات ہو گئی ہوتی

تو تیز دھوپ میں برسات ہو گئی ہوتی

جو ساتھ ان کے مِری ذات ہو گئی ہوتی

نگاہِ شوق بھی سوغات ہو گئی ہوتی

شکست وریخت سے میں بھی اگر گزر جاتی 

تو کامیاب مِری ذات ہو گئی ہوتی

نوحۂ ہجرت؛ ہجرت بھی عجب اب کہ مکینوں سے ہوئی ہے

 نوحۂ ہجرت


ہجرت بھی عجب اب کہ مکینوں سے ہوئی ہے

جس شہر میں رہتے تھے وہی شہر ہے اب تک

جس گھر میں بسیرا تھا، وہی اب ہے ٹھکانہ

جس چھت کی دعا مانگتے رہتے تھے سبھی لوگ

اب تک ہے سروں پر اسی چھتنار کا سایہ

پھر بھی کوئی ہجرت ہے کہ چہروں پہ سجی ہے

جب سوالات جوابات سے طے پاتے ہیں

 جب سوالات، جوابات سے طے پاتے ہیں

تب نتائج بھی تو خدشات سے طے پاتے ہیں

جب دعا خوف کے عالم میں زباں سے نکلے

تب عقائد بھی تو صدمات سے طے پاتے ہیں

عشق، ہیجان، کشش، ذوق، جنوں، ضبط، ادا

یہ ضوابط جو جمالات سے طے پاتے ہیں

اس کو تشبیہ دیتا بھی تو کس سے میں

 اس کو تشبیہ دیتا بھی تو کس سے میں 

لفظ تھے ہی نہیں

میں نے تھک کر لغت بند کی اور پھر

دیر تک کھڑکی کھولے کھڑا

سوچتا ہی رہا 

سوچتے سوچتے ذہن تک تھک گیا 

سنبھل اے دل کسى کا راز بے پردہ نہ ہو جائے

 سنبھل اے دل کسى کا راز بے پردہ نہ ہو جائے

یہ دیوانوں کی محفل ہے کوئی رُسوا نہ ہو جائے

دکھا دوں میں زمانے کو تماشہ اپنی وحشت کا 

مگر ہے بات اتنی سی کہ تو رُسوا نہ ہو جائے 

وہ شاید اس لیے آتے نہیں گورِ غریباں پر

کَہیں ٹھوکر نہ لگ جائے کوئی زندہ نہ ہو جائے

عرفان کا غرور وہیں پاش پاش ہو

 عرفان کا غرور وہیں پاش، پاش ہو

وجدان کے اشارے پہ گر بود و باش ہو

شوقِ وصالِ یار میں کھو جائے زندگی

صدیوں پہ اک محیط ملاقات کاش ہو

یا مجھ کو فکرِ یار سے آزادی بخش دے

یا مجھ پہ میری ذات کا ہر راز فاش ہو

چاند سورج اور ستارے سب انہی کے واسطے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چاند سورج اور ستارے سب انہیﷺ کے واسطے

پھول کلیاں اور نظارے سب انہیﷺ کے واسطے

رات کی رانی کی خوشبو، انﷺ کا شب کو جاگنا

موتیے جو مُشکبارے، سب انہیﷺ کے واسطے

آسمانوں کی بلندی انﷺ کی رفعت کا نشاں

شان کے اونچے منارے، سب انہیﷺ کے واسطے 

Tuesday 18 April 2023

ہے عجب شغل مرا رات کے ڈھل جانے تک

 ہے عجب شغل مِرا رات کے ڈھل جانے تک

دیکھتا رہتا ہوں تارا کوئی جل جانے تک

پھر سلا دے گا اسے بحر کا اک گہرا سکوت

مستی ہے موج میں ساحل پہ مچل جانے تک

کیا ہوا اس کی گرہ میں ہے اگر اک دوری

میں بھی تو اس کا ہوں بس اس کے بدل جانے تک

اپنی چمڑی سے بنی پاپوش پہنائی اسے

 اپنی چمڑی سے بنی پاپوش پہنائی اسے

پھر نہ جانے کیا ہوا عزت نہ راس آئی اسے

جا نہیں سکتا کوئی اِس گنبدِ بے سمت سے

خاک پر مارے گا شوقِ عرش پیمائی اسے

میری آنکھوں میں اُبلتے قلزمِ خوں رنگ کی

دور سے کیسے نظر آئے گی گہرائی اسے

تو کبھی ملتا ہمیں تو ہم بھی دنیا دیکھتے

 تُو کبھی ملتا ہمیں تو ہم بھی دنیا دیکھتے

آئینے میں دیکھتے تو تیرا چہرہ دیکھتے

جس کی خاطر اپنا گھر تک خاک کر کے رکھ دیا

ہم اسے یوں کس طرح سے تنہا روتا دیکھتے

خواہشوں میں ایک خواہش کی بہت شدت رہی

وہ ہمیں روتا تو ہم بس اس کو ہنستا دیکھتے 

چیختی چنگھاڑتی تیز نظروں کا دھواں

 ردائی پیوند


چیختی چنگھاڑتی تیز نظروں کا دھواں

چوک میں بیٹھی ہوئی بھوک کی آواز تھی

بھوک پھیلے ہاتھ کی، بھوک نظروں کی الگ

بھوک نظروں کی بڑھی، اوڑھنی پسپا ہوئی

اوڑھنی کی اوٹ میں، ایک خاکی پیراہن

پیکر مجبور کی ڈھال بھی کمزور تھی

ورنہ ویسے تو کسی سے بھی بگڑ سکتا ہوں

 ورنہ ویسے تو کسی سے بھی بگڑ سکتا ہوں

سامنے تو ہے بھلا تجھ سے بھی لڑ سکتا ہوں

میرا پھیلاؤ ہے مشروط جگہ سے ورنہ

وقت پڑ جانے پہ اتنا ہی سکڑ سکتا ہوں

میں نے اک بار اسے ہاتھ لگا کر دیکھا

پھر یقیں آیا کہ خوشبو کو پکڑ سکتا ہوں

بات ایسی ہے کہ اعصاب کو لے بیٹھی ہے

 بات ایسی ہے کہ اعصاب کو لے بیٹھی ہے

ایک مچھلی میرے تالاب کو لے بیٹھی ہے

آنکھ جس کے لیے ہلکان ہوئی جاتی تھی

وہی تعبیر مِرے خواب کو لے بیٹھی ہے

سوچتا ہوں کہ مِرے دوست تِری سبز دعا

کس طرح قریۂ شاداب کو لے بیٹھی ہے

اک تناسب سے مجھے خلق خدا کھینچتی ہے

 اک تناسب سے مجھے خلق خدا کھینچتی ہے 

ڈھیل دیتی ہے ذرا اور ذرا کھینچتی ہے

پانی مقدار میں کم آنے لگے تو سمجھو

آنکھ ابرو کے مساموں سے ہوا کھینچتی ہے 

ایک جیسی ہے خدا کی بھی، غزل کی بھی زمیں 

اپنے دامن میں سبھی کو یہ بلا کھینچتی ہے 

غبار راہ سے ان کی یہ ساری داستاں روشن

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


غبارِ راہ سے انﷺ کی، یہ ساری داستاں روشن 

جبیں کے شبنمی قطرے، ستارے کہکشاں روشن

مہکتے باغ جنت کے انہیﷺ کی چند سانسیں ہیں

انہیﷺ کی مسکراہٹ سے بہشتی وادیاں روشن 

کہ روشن انﷺ کے آنے سے ہوئے سائے جہالت کے

کہ انﷺ کا آخری خطبہ ہے حکمت کا بیاں روشن

Monday 17 April 2023

جدائی پیاس بھڑکانے لگی ہے

 جدائی پیاس بھڑکانے لگی ہے

محبت خواب دکھلانے لگی ہے

کہیں مرگِ وفا کی بُو اڑی تو

فضا میں چیل منڈلانے لگی ہے

دلِ بے تاب میں ہلچل مچی ہے

نظر میں شام اٹھلانے لگی ہے

گفتگو کیا کہا تم نے بھی دنیا دیکھی ہے

 گفتگو


کیا کہا تم نے بھی دنیا دیکھی ہے

چل جھوٹی

ارے ہاں ہاں میں نے دنیا دیکھی ہے

تمہاری قسم میں نے 

تمہاری نظروں سے دنیا دیکھی ہے


مشکوٰۃ سید

کل جو میں نے سوچا تھا آج بھی نہیں ہو گا

 کل جو میں نے سوچا تھا

آج بھی نہیں ہو گا

کچھ پرانی غزلیں جو 

خستہ ڈائری میں ہیں

ڈھیر سارے وہ کاغذ

جن پہ کچھ خیالوں کو

چھین کر ہر شرافت حیا لے گئی

 چھین کر ہر شرافت حیا لے گئی

وقت کی موج سب کچھ بہا لے گئی

امن کی جھونپڑی، ایکتا کا محل 

نفرتوں کی ہوا سب اُڑا لے گئی

روشنی بانٹتا تھا پڑوسی کو جو

اک دِیا تھا اُسے بھی ہوا لے گئی

خامشی کی یہ ہچکیاں سن لو

 خامشی کی یہ ہچکیاں سُن لو

میرے لفظوں کی سِسکیاں سن لو

ان پہ رسموں کا بوجھ مت ڈالو

بولتی کیا ہیں لڑکیاں سن لو

در پہ دستک جو تم نہیں دیتے

بین کرتی ہیں کھڑکیاں سن لو

لا ادھر ہاتھ کہ ہم درد کی اس ڈوبتی ناؤ سے اتر کر

 لا اِدھر ہاتھ

کہ ہم درد کی اس ڈوبتی ناؤ سے اتر کر

چلیں اس پار

جہاں کوچہ و بازار نہ ہوں

درد کے آثار نہ ہوں

در و دیوار اگر ہوں بھی

صبر و سکوں کہاں ہے ترے انتظار میں

 صبر و سکوں کہاں ہے تِرے انتظار میں

دل اختیار میں،۔ نہ نظر اختیار میں

فرقت کی بات تک بھی گوارا نہ تھی جسے

تارے وہ گن رہا ہے شبِ انتظار میں

اللہ رے یہ بادۂ رنگیں کی شوخیاں

زاہد کو پینی پڑ گئی اب کے بہار میں

سخت حالات کا پتھر سے تو شکوہ نہ کرے

 سخت حالات کا پتھر سے تو شکوہ نہ کرے

ایسے سنگین خداؤں کو تو سجدہ نہ کرے

یا مِرا ساتھ نبھائے سرِ دشتِ جنوں وہ

یا مِرا ہاتھ گھڑی بھر کو بھی پکڑا نہ کرے

کوئی کب تک یوں رہے خواب جزیرے پہ رکا

ہے اگر نیند تو کیا نیند سے جاگا نہ کرے

پھل پھول لگاتا ہے کہ اب آگ لگا دے

پھل پھول لگاتا ہے کہ اب آگ لگا دے

کس پیڑ کو معلوم ہیں موسم کے ارادے

دامنِ خوشبو پہ کیا کیا داغِ رسوائی نہیں

اب تو کوئی شاخ پھولوں کی تمنائی نہیں

کیسی کیسی پُرسشیں انور رُلاتی ہیں مجھے

کھیتوں سے کیا کہوں میں اَبر کیوں برسا نہیں

میں ہوں اک مزدور کی بیٹی میرا نسب غریبی ہے

 میں ہوں اک مزدور کی بیٹی


میرا نسب غریبی ہے

کتنی گرم دوپہروں میں بھی

اپنے باپ اور بھائی کے سنگ

اپنی بہن اور ماں کے ساتھ

سارا دن اس سڑک کنارے

پتھر کوٹتی رہتی ہوں

کبھی بتاؤ جہاں پہ تم ہو وہاں پہ کیا ہے

 استفسار


کبھی بتاؤ

جہاں پہ تم ہو

وہاں پہ کیا ہے

کہ میں جہاں ہوں

بجز تغیّر

پاؤں نہیں بدلے تو یہ زنجیر بدل جائے گی

 پاؤں نہیں بدلے تو یہ زنجیر بدل جائے گی 

ایک نہ اک دن قیدی کی تقدیر بدل جائے گی

یونہی بدلتا رہا اگر تو کوئی نہ کوئی لفظ

دھیرے دھیرے تو ساری تحریر بدل جائے گی 

اس نے کہا تھا خواب بدلنا تو مشکل ہے بہت

اچھا تم کہتے ہو تو تعبیر بدل جائے گی

تمہاری شرط محبت کبھی وفا نہ ہوئی

 تمہاری شرط محبت کبھی وفا نہ ہوئی

یہ کیا ہوئی تمہیں کہہ دو اگر جفا نہ ہوئی

قدم قدم پہ قدم لڑکھڑائے جاتے تھے

تمام عمر بھی طے منزل وفا نہ ہوئی

تمہیں کہو تمہیں ناآشنا کہیں نہ کہیں

کہ آشنا سے ادا رسم آشنا نہ ہوئی

کارواں چلنے کو تیار ہے ایسا بھی نہیں

کارواں چلنے کو تیار ہے، ایسا بھی نہیں

راستے میں کوئی دیوار ہے، ایسا بھی نہیں

پورے قصے میں کہیں بھی نظر آیا نہیں یہ

عشق بھولا ہوا کردار ہے، ایسا بھی نہیں

ریل گاڑی سے میں ٹکراؤں گا ناکامی پر

اتنا اونچا مِرا معیار ہے، ایسا بھی نہیں

Sunday 16 April 2023

دعا کے رتھ پر سوار لڑکی

دُعا


دُعا کے رتھ پر سوار لڑکی

تمہاری آنکھوں کو

معجزوں پر یقین کیوں ہے

زمیں ہے بنجر

فلک مقفّل

نوائیں بے بس

کہہ گیا میں کسی روانی میں

 کہہ گیا میں کسی روانی میں

بات وہ ڈھل گئی کہانی میں

ان کو تو یاد بھی نہیں ہو گا

ہم ملے تھے، کبھی جوانی میں

دیکھ لو میری اشکبار آنکھیں

جل رہے ہیں چراغ پانی میں

اوروں کو اس نے اذن دیا بار عام کا

 اوروں کو اس نے اذن دیا بار عام کا

ہم ڈھونڈتے ہیں دور سے موقع سلام کا

تشبیہ دوں میں کیا تِرے چہرے سے اے قمر

سارا بدن سپید ہے ماہِ تمام کا

ہم جانتے ہیں غیر سے رکھتے ہو راہ تم

پرچہ لگا ہے ہم کو تمہارے پیام کا

نا دیکھا ہو گا جو تم نے وہ تھم کر دیکھتے جاؤ

 نا دیکھا ہو گا جو تم نے وہ تھم کر دیکھتے جاؤ

لبوں تک آ چکی ہے جانِ مضطر دیکھتے جاؤ

جوانی کی اداؤں کا زمانہ آتا جاتا ہے

قیامت ڈھائے گی شانِ ستمگر دیکھتے جاؤ

غضب تھا صبحِ وصل اس کا یہ مجھ سے کہنا

ہماری نیم باز آنکھوں کے جوہر دیکھتے جاؤ

راستوں کی تھکن اٹھاتے ہوئے

 راستوں کی تھکن اُٹھاتے ہوئے

دشت پہنچا ہوں گیت گاتے ہوئے

میں نے زیتون کے درختوں میں

چاند دیکھا ہے مسکراتے ہوئے

کھول دیتا ہوں نیند میں بانہیں

خواب کا راستہ بناتے ہوئے

سبز رتوں میں پل بھر جو مہمان رہا

 سبز رتوں میں پل بھر جو مہمان رہا

ہر موسم میں اس کا ہی کیوں دھیان رہا

آنے والی نیند بھی رستہ بھول گئی

یاد کا جنگل حد درجہ گنجان رہا

شب کے رخ سے ایک ذرا آنچل سر کا

اور اجالا دن بھر کی پہچان رہا

لمس اپنی دلیل دیتے ہیں

 لمس اپنی دلیل دیتے ہیں

ورنہ بوسے بھی نیل دیتے ہیں

باندھ رکھنے کے ہم نہیں قائل

ہم محبت میں ڈھیل دیتے ہیں

نرم اتنا نہ بن زمانے میں

لوگ ناخن سے چھیل دیتے ہیں

عاشقی میں کہاں گزند نہیں

 عاشقی میں کہاں گزند نہیں

عشق شاخِ نبات و قند نہیں

گر نہ شامل رضائے جاناں ہو

ہجر سے وصل سر بلند نہیں

آپ کا ہر ستم گوارا ہے

ہاں مگر تابِ زہر خند نہیں

آج دیکھا جو کوئی شخص دیوانہ مرے دوست

 آج دیکھا جو کوئی شخص دیوانہ مِرے دوست

یاد پھر آیا مجھے میرا فسانہ مرے دوست

میں تِرے ہجر میں چپ چاپ جیئے جاتا ہوں

دل کو آتا ہے کہاں کوئی بہانہ مرے دوست

خود سے نکلوں تو نئے شہر کا نقشہ دیکھوں

اک زمانے سے ہوں محروم زمانہ مرے دوست

ہر آنکھ میں تیرا جلوہ ہے ہر دل میں سرور و مستی ہے

 ہر آنکھ میں تیرا جلوہ ہے ہر دل میں سرور و مستی ہے 

بس قابلِ سجدہ میرے لیے سرکار تمہاری ہستی ہے 

ہر ناز پہ مٹتے جاتے ہیں انداز پہ مٹتے جاتے ہیں 

اے شمع تِرے پروانوں کی یہ جان بھی کتنی سستی ہے 

جس سمت گزرتے جاتے ہیں ہر گام پہ کعبے بنتے ہیں 

ساقی کے نرالے مستوں میں کچھ ایسی نرالی مستی ہے 

پردے پردے میں بہت مجھ پہ ترے وار چلے

 پردے پردے میں بہت مجھ پہ ت<رے وار چلے

صاف اب حلق پہ خنجر چلے، تلوار چلے

دورئ منزل مقصد کوئی ہم سے پوچھے

بیٹھے سو بار ہم اس راہ میں سو بار چلے

کون پامال ہوا اس کی بلا دیکھتی ہے

دیکھتا اپنی ہی جو شوخیٔ رفتار چلے

Saturday 15 April 2023

جو بائیں ہاتھ کی انگلی میں اک انگوٹھی ہے

 جو بائیں ہاتھ کی انگلی میں اک انگوٹھی ہے

ہمارے سر پہ قیامت کے جیسے ٹوٹی ہے

دِلا! دِلا! اے مِرے خوش گمان ہوتے دِلا

تجھے کہا تھا وہ دنیا ہے اور جھوٹی ہے

تمام رات مجھے جاگنا پڑے گا اب

تِرے خیال کی آہٹ سے نیند ٹوٹی ہے

پنل تم آدمی نکلے

پُنل تُم آدمی نکلے


علیشاء بن کے آئے تھے

مِری تم لسٹ میں، لیکن

علی شاہ تم نکل آئے

مجھے تم سے محبت تھی 

تمہیں لڑکی سمجھتا تھا 

خود سے جدا ہوئے تو کہیں کے نہیں رہے

 خود سے جدا ہوئے تو کہیں کے نہیں رہے

یوں در بدر ہوئے کہ زمیں کے نہیں رہے

رشتے رفاقتوں کے رقابت میں ڈھل گئے

دیوار و در بھی اپنے مکیں کے نہیں رہے

ہجرت زدہ لباس میں پھرتے ہیں دربدر

رہنا تھا جس نگر میں وہیں کے نہیں رہے

مری دنیا بہت تیزی سے خالی ہو رہی ہے

 مری دنیا بہت تیزی سے خالی ہو رہی ہے 

عجب مشکل ہے میری 

کسی کی آنکھ میں ہے کون سا چہرہ مِرا یہ بھول جاتا ہوں 

مگر الزام دینا حافظے کو بھی غلط ہو گا 

یہ ممکن ہی نہیں ہے 

کوئی اپنے سارے چہرے یاد رکھ پائے 

سیل گریہ تھا رواں درد جب اشک بنا

 سیلِ گریہ تھا رواں درد جب اشک بنا

تم تو خاموش تھے ناں درد جب اشک بنا

آہ بھرتے ہی رہے یاد کرتے ہی رہے

عشق میں سود و زیاں درد جب اشک بنا

تیری الفت نے صنم آگ لگا رکھی ہے

دل سے اٹھتا ہے دھواں درد جب اشک بنا

کیوں کریں ہم آشکار غم جو اپنے دل میں ہے

 کیوں کریں ہم آشکار غم جو اپنے دل میں ہے

ہے مگر یہ سچ ہمارا دل بڑی مشکل میں ہے

چل رہا ہے راستے میں کارواں کے ساتھ وہ

دل مگر اس کا مسلسل دورئ منزل میں ہے

ایک دن لہریں بھی اس کو ساتھ اپنے لے گئیں

کہہ رہا تھا جو کہ اکثر عافیت ساحل میں ہے

اجازت ہو تو سب کہہ دوں

 اجازت ہے؟


اگر جاں کی اماں پاؤں

تو سب کہہ دوں؟

تمہاری تنگئ افکار ثابت ہے

مگر تم سوچ کی بندش کو مذہب کہہ نہیں سکتے

جبلت کے خصائص سارے انسانوں میں 

تسبیح کے دن اور مناجات کی راتیں

 ماہِ صیام


تسبیح کے دن اور مناجات کی راتیں

ہیں رحمتِ باری سے ملاقات کی راتیں

بن جائیں کاش حشر میں بخشش کا وسیلہ

یہ ذوقِ تلاوت، یہ عبادات کی راتیں

اس ماہ میں اللہ نے قرآن دیا ہے

یہ رب کے ہیں انعام کی سوغات کی راتیں

خدا کی بزم جہاں پر ہے یہ عنایت خاص

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خدا کی بزمِ جہاں پر ہے یہ عنایتِ خاص

کہ دے کے آپؐ کو بھیجا گیا ہدایتِ خاص

خدا اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں

نگاہِ شوق میں آیت یہی ہے آیتِ خاص

بجز زیارتِ روئے رسولﷺ جنت سے

غرض ہی خاص ہمیں ہے کوئی نہ غایتِ خاص

حال دل کس کو سنائیں آپ کے ہوتے ہوئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حالِ دل کس کو سنائیں آپﷺ کے ہوتے ہوئے

اور دَر پہ کس کے جائیں آپﷺ کے ہوتے ہوئے

میں غلام مصطفٰیﷺ ہوں یہ مِری پہچان ہے

غم مجھے کیوں کر ستائیں آپﷺ کے ہوتے ہوئے

شانِ محبوبی دکھائی جائے گی محشر کے دن

کون دیکھے گا خطائیں آپﷺ کے ہوتے ہوئے

عرب میں روضۂ اطہر ہے کیا کیا جائے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


عرب میں روضۂ اطہر ہے کیا کیا جائے

دل اس کی دید کو مضطر ہے کیا کیا جا ئے

بلاؤں میں ہو گِھرے تو نبیﷺ کو دو آواز

تمہارے ہونٹوں پہ کیونکر ہے کیا کیا جائے

میں چاہتا ہی رہا کوئی بار بار گیا

یہ اپنا اپنا مقدر ہے کیا کیا جائے

کھلا ہے سبھی کے لیے باب رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کھلا ہے سبھی کے لیے بابِ رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی

مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی، قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی

میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی

وہ دربار سچ مچ مِرے سامنے تھا، ابھی تک تصور تھا جس کا خیالی

میں اک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھا تو تھی دوسرے ہاتھ میں سبز جالی

دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے تو کیسے؟ نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی

Friday 14 April 2023

آسان تھا بادلوں کا ہٹانا میرے لیے

کشمیری کلام سے اردو ترجمہ


آسان تھا بادلوں  کا ہٹانا میرے لیے

ممکن ہے میں نکالتی دیر سے سارا اب

بیمار خستہ حال کا کر سکتی میں علاج

لیکن میں بے وقوف کو قائل نہ کر سکی


للہ عارفہ/لل ایشوری/لل دید/لل ما جی

اردو ترجمہ؛ نند لال طالب

بد نصیب آج اس کے جنازے کے لیے

بد نصیب


آج اس کے جنازے کے لیے

اتنے سارے کاندھے ہیں

دکھ تو صرف یہ ہے

کہ زندگی میں جب

اس نے رونا چاہا تھا

زخموں کا بیوپاری ہے

 زخموں کا بیوپاری ہے

اچھی ساہو کاری ہے

بوجھل بوجھل پلکوں پر

رات ابھی تک طاری ہے

بس اک پتھر جُھگی کا

شیش محل پر بھاری ہے

ایسے ہم جلے ہیں اب

 ایسے ہم جلے ہیں اب

مرنے کو چلے ہیں اب

دل گھٹا گھٹا سا ہے

لب مِرے سِلے ہیں اب

آندھیاں چلیں گی سن

پات بھی ہلے ہیں اب

چلتے چلتے مر جاتے ہیں

 چلتے چلتے مر جاتے ہیں

کچھ یوں حیراں کر جاتے ہیں

مرنے میں بھی جلدی ایسی

جیسے اپنے گھر جاتے ہیں

کیسے ہیں جو مر کر خوش ہیں

ہم جیسے تو ڈر جاتے ہیں

ہوا سرکش اندھیرا سخت جاں ہے

 ہوا سرکش اندھیرا سخت جاں ہے 

چراغوں کو مگر کیا کیا گماں ہے 

یقیں تو جوڑ دیتا ہے دلوں کو 

کوئی شے اور اپنے درمیاں ہے 

ابھی سے کیوں لہو رونے لگی آنکھ 

پس منظر بھی کوئی امتحاں ہے 

موت سے بات چیت ممکن نہیں

 مشابہت

پنجرے میں بیٹھی مرغیاں 

اور ہسپتال کی گزرگاہوں میں بیٹھے لوگ کتنے ملتے ہیں

مفاہمت

موت سے بات چیت ممکن نہیں 

خوف میں کوئی نغمہ نہیں گایا جاتا 

کہاں کا عشق کہاں کی محبتیں مرشد

 کہاں کا عشق کہاں کی محبتیں مرشد

تمام عمر ہی جھیلی ہیں وحشتیں مرشد

ہم ایسے لوگ کہاں راس آ سکے محبت کو

کہ جن پہ بار ہیں اپنی طبیعتیں مرشد

سروں کی خاک ہمیں کھینچ لائی ہے ورنہ

کہاں کا ہِجر کہاں کی یہ ہِجرتیں مرشد

دن کی وحشت تو گئی چاک گریباں ہو کر

دن کی وحشت تو گئی چاک گریباں ہو کر

شام آئی ہے تِرے در سے پریشاں ہو کر

وہ تفرقہ ہوا برپا تِرے کھو جانے پہ

دل ہی روپوش ہوا بے سر و ساماں ہو کر

ہے کوئی شوخ جو بہکائے، اٹھائے اس کو

درد بیٹھا ہے یہاں دیر سے درباں ہو کر

جھٹ سے کہہ دینا چلے جاؤ نہیں بنتا تھا

 جھٹ سے کہہ دینا چلے جاؤ نہیں بنتا تھا 

اس قدر تلخ تو برتاؤ نہیں بنتا تھا 

کتنے دلکش تھے محبت کی شروعات کے دن 

وہ روانی تھی کہ ٹھہراؤ نہیں بنتا تھا

وہ سراپا بھی معاون تھا بہکنے میں میرے

ورنہ اس آگ کا پھیلاؤ نہیں بنتا تھا 

سمجھ رہے ہیں کہ ان کو ادب میں نام ملا

 ادب کے نام پہ

ادب کے نام پہ تہذیب کے لٹیروں نے

جو کارہائے نمایاں کیے کہوں کیسے

کسی نے شعر میں پھبتی کسی بہ ایں مقصد

کہا گیا کبھی عریاں نگار کو فنکار

جدیدیت کے تقاضے نبھا دیے لیکن

اگرچہ بات ہمیشہ زمیں کی کرتا ہے

 اگرچہ بات ہمیشہ زمیں کی کرتا ہے

مگر یقین فقط آسماں میں رکھتا ہے

ہر ایک سمت، ہر اک رُخ پہ راج ہے اس کا

ہوائیں بند کفِ بادباں میں رکھتا ہے

نگاہ جس پہ ذرا مہربان ہو جائے

تمام عمر اسے امتحاں میں رکھتا ہے

میری چھاگل خالی تھی

 خالی چھاگل


جانے کیا سوچ کے اس نے

محفل میں بیٹھے اک بوڑھے کی چٹکی لی

"بابا جی کوئی حکمت کی بات بتائیں"

اپنی دھندلی آنکھوں سے

بابا جی نے اس کی جانب دیکھا

یہ مکیں کیا یہ مکاں سب لامکاں کا کھیل ہے

 یہ مکیں کیا یہ مکاں سب لامکاں کا کھیل ہے

اک فسوں ہے یہ جہاں سب آسماں کا کھیل ہے

مدتوں کے بعد کوئی ہم سے یہ کہہ کر ملا

کچھ نہیں یہ ہجر بس آہ و فغاں کا کھیل ہے

آج سوکھے پھول جب ہم کو کتابوں میں ملے

سوچنے پر یاد آیا باغباں کا کھیل ہے

لفظ بھی نام و نسب رکھتے ہیں یہ جان رکھو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


لفظ بھی نام و نسب رکھتے ہیں یہ جان رکھو

مدح کرنی ہے تو ہر لفظ کی پہچان رکھو

گر سراپا شہِ والاﷺ کا بیاں کرنا ہوں

پاس مشکوات رکھو سامنے قرآن رکھو

نقرئی لوح پہ سب حرف ہوں آبِ زر کے

ایک نقطہ بھی نہ میلا ہو ذرا دھیان رکھو

Thursday 13 April 2023

عمر ڈھل رہی ہے رت بدل رہی ہے

 عمر ڈھل رہی ہے

رُت بدل رہی ہے

میرے وجود کی ہر شاخ پر

گرد سے اٹے ہوئے

وقت کی پھوار سے

سارے پتے دُھل رہے ہیں

مری دنیا بہت تیزی سے خالی ہو رہی ہے

 عجب مشکل ہے میری


مِری دنیا بہت تیزی سے خالی ہو رہی ہے

عجب مشکل ہے میری

کسی کی آنکھ میں ہے کون سا چہرہ مِرا یہ بھول جاتا ہوں

مگر الزام دینا حافظے کو بھی غلط ہو گا

یہ ممکن ہی نہیں ہے

جبراً پیاس پہ پہرا ہوتے دیکھا ہے

جبراً پیاس پہ پہرا ہوتے دیکھا ہے

میں نے دریا صحرا ہوتے دیکھا ہے

آنکھ میں موت کے کالے کالے آنسو ہیں

خواب میں نیند کو گہرا ہوتے دیکھا ہے

آنکھیں مونالیزا جیسی ہیں اس کی

خاموشی کو چہرا ہوتے دیکھا ہے

سفر کی دھول کو چہرے سے صاف کرتا رہا

 سفر کی دھول کو چہرے سے صاف کرتا رہا 

میں اس گلی کا مسلسل طواف کرتا رہا 

یہ میری آنکھ کی مسجد ہے پاؤں دھیان سے رکھ 

کہ اس میں خواب کوئی اعتکاف کرتا رہا 

میں خود سے پیش بھی آیا تو انتہا کر دی 

مجھ ایسے شخص کو بھی وہ معاف کرتا رہا 

نہ ہے بت کدے کی طلب مجھے نہ حرم کے در کی تلاش ہے

 نہ ہے ٭بتکدے کی طلب مجھے نہ حرم کے در کی تلاش ہے 

جہاں لُٹ گیا ہے سکونِ دل، اسی رہگزر کی تلاش ہے 

نہ ہے ٭بتکدہ کی طلب مجھے نہ حرم کے در کی تلاش ہے 

جہاں لٹ گیا ہے سکون دل اسی رہگزر کی تلاش ہے 

اسے پا سکے کہ نہ پا سکے، یہ نظر نظر کی تلاش ہے

جو کسی بھی راہ میں کھو گئی مجھے اس نظر کی تلاش ہے

حصے میں کب تھا اب تجھے جتنا پہن لیا

 حصے میں کب تھا اب تجھے جتنا پہن لیا

کم فائدہ، زیادہ خسارہ پہن لیا

سب کو مقامِ خاص دیا ایک وقت تک

پھر میں نے سب سے جو ملا دھوکا، پہن لیا

میں نے سنی تھی داستان اک دن فراق کی

وحشت سے خود پہ خون کا دریا پہن لیا

تم کسی قبر پر بھی فاتحہ پڑھ کے چلے جاؤ

 فاتحہ


اگر قبرستان میں 

الگ الگ کتبے نہ ہوں 

تو ہر قبر میں 

ایک ہی غم سویا ہوا رہتا ہے 

کسی ماں کا بیٹا 

اب اس لیے بھی دشت میں آتا نہیں کوئی

 اب اس لیے بھی دشت میں آتا نہیں کوئی

ٹوٹے دلوں کا سوگ مناتا نہیں کوئی

ہر دن تِری گلی کا پتہ پوچھتا ہوں میں

ہر دن میں پوچھتا ہوں بتاتا نہیں کوئی

دل بھی شکستہ قبر پہ رکھے دِیے سا ہے

اک بار بُجھ گیا تو جلاتا نہیں کوئی