Friday, 14 April 2023

دن کی وحشت تو گئی چاک گریباں ہو کر

دن کی وحشت تو گئی چاک گریباں ہو کر

شام آئی ہے تِرے در سے پریشاں ہو کر

وہ تفرقہ ہوا برپا تِرے کھو جانے پہ

دل ہی روپوش ہوا بے سر و ساماں ہو کر

ہے کوئی شوخ جو بہکائے، اٹھائے اس کو

درد بیٹھا ہے یہاں دیر سے درباں ہو کر

جب تِری یاد تراشی، اسے سیراب کیا

کھل اٹھا جیسے کوئی خار گلستان ہو کر

یہ مِرے پاؤں میں کس خواب کی زنجیر ہے جو

راستہ مجھ پہ کھلا دیدۂ حیراں ہو کر


حسین عابد

No comments:

Post a Comment