جھٹ سے کہہ دینا چلے جاؤ نہیں بنتا تھا
اس قدر تلخ تو برتاؤ نہیں بنتا تھا
کتنے دلکش تھے محبت کی شروعات کے دن
وہ روانی تھی کہ ٹھہراؤ نہیں بنتا تھا
وہ سراپا بھی معاون تھا بہکنے میں میرے
ورنہ اس آگ کا پھیلاؤ نہیں بنتا تھا
عجز کو عیب سمجھتے تھے خریدار میرے
دیکھ کر مجھ کو میرا بھاؤ نہیں بنتا تھا
لوگ تو لوگ تھے آوارہ سمجھتے تھے مجھے
تیری کھڑکی سے تو پتھراؤ نہیں بنتا تھا
چاہتا تھا کہ کوئی زخم امر ہو تاثیر
چوٹ لگتی تھی مجھے گھاؤ نہیں بنتا تھا
نثار محمود تاثیر
No comments:
Post a Comment