قصور سب ہے یہ نا معتبر علامت کا
الجھ کے رہ گیا مفہوم ہی عبارت کا
تمہارے سامنے منظر کہاں قیامت کا
عذاب سہتے کبھی کاش تم بھی ہجرت کا
قلم کے ساتھ زباں بھی تراش لو میری
یہ امتحان بھی لے لو مِری صداقت کا
کوئی سنائے تو آ کر حدیثِ شب زدگاں
ابھی بجھا نہیں شعلہ مِری سماعت کا
مِری حیات کی وسعت پہ ہو گیا ہے محیط
وہ ایک پل جو امیں ہے تِری رفاقت کا
ہے ایک دانۂ گندم کی فتنہ سامانی
یہی ہے نکتۂ آغاز اپنی ہجرت کا
تباہیوں پہ قمر چپ ہیں لوگ بستی کے
ہے انتظار ابھی شاید کسی کرامت کا
قمر سنبھلی
No comments:
Post a Comment