جو مہرباں الفاظ تھے کس نے سنے، کس نے کہے
یوں منتظر تیرے لئے، اے نامہ بر، ہم بھی رہے
تلوؤں کے چھالے کیا کہیں کیوں فاصلے بڑھتے رہے
دشتِ وفا کے مرحلے کس آس پر جی نے سہے
راتوں کے سائے رچ گئے پلکوں کی بھیگی چھاؤں میں
اُجلی رُتوں کی چاہ میں آنکھوں کنول جلتے رہے
بے نام سی اک آرزو، بے تاب سی اک تشنگی
اپنی کہانی زندگی کس سے کہے، کیسے کہے
ادا جعفری
No comments:
Post a Comment