پانچ دس پیسے، چار آنے تھے
وہ زمانے بھی کیا زمانے تھے
جیب میں ہونگے ایک دن سو بھی
اُن دنوں خواب یہ سہانے تھے
یار، بوتل، کباب اور قلفی
کبھی قارون کے خزانے تھے
عید کا انتظار رہتا تھا
سِکے جیبوں میں کھنکھنانے تھے
کتنی سستی تھیں وہ سبھی خوشیاں
کیا حسیں وقت وہ پرانے تھے
آج پیسہ ہے عقل اور دانش
کل تلک لوگ ہی سیانے تھے
کل میسر تھے مفت جو منظر
اب وہ لاکھوں میں بھی نہ آنے تھے
ہم نے بچپن کو ساتھ یوں رکھا
عمرِ دوراں کے غم بھلانے تھے
خوب پچھلی صدی تھی وہ ابرک
جو تعلق تھے سولہ آنے تھے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment