ہم اندھیروں میں اجالوں کے سفیروں کی طرح
کچھ حوالوں کی طرح چند نظیروں کی طرح
وہ جو ڈوبے تھے مِرے سوچ سمندر میں کہیں
اب ابھر آئے ہیں بے چاپ جزیروں کی طرح
بندگی میں بھی ہیں اندازِ خدائی موجود
زندگی کون کرے ہم سے فقیروں کی طرح
یوں ہوا جیسے ہو سِسکی کوئی سناٹے میں
چاند آتا ہے نظر شب کے اسیروں کی طرح
جسم ہے بسترِ اطلس پہ مگر ذہن ترا
پارہ پارہ مِرے ملبوس کی لیروں کی طرح
تیرا گاؤں میرا قرطاسِ مقدر ہی نہ ہو
تیری گلیاں مِرے ہاتھوں کی لکیروں کی طرح
سید نصیر شاہ
No comments:
Post a Comment