مسائل اپنے لیے میں بڑھا نہیں سکتا
ہر ایک خوشۂ گندم جلا نہیں سکتا
قریب دور کی عینک سے دیکھتا ہوں مگر
قریب، دور کی عینک سے لا نہیں سکتا
غزل کا شعر ہی کافی ہے یاد میں اس کی
تمہارے کہنے پہ آنسو بہا نہیں سکتا
چلے گئے ہیں جو بیٹا وہ اچھے افسر تھے
ملازمت پہ تجھے اب لگا نہیں سکتا
میں توڑ پھوڑ کا عادی نہیں بنا حارث
ستارے چاند کی خاطر بھی لا نہیں سکتا
حارث انعام
No comments:
Post a Comment