مِرے خدایا بروزِ محشر مِرا بھی تجھ سے سوال ہو گا
کبھی تو آ کر ملوں گا تجھ سے، کبھی تو آخر وِصال ہو گا
ہے جس طرح کی گُھٹن یہاں پر کہ بس خدا کا ہی آسرا ہے
میں مر گیا تو یہ حکمِ ربی،۔ میں بچ گیا تو کمال ہو گا
میں چاہتا تھا پلٹ کے دیکھے تو اس کی آنکھیں بھی نم سی دیکھوں
میں سوچتا تھا کہ وقتِ رخصت اسے بھی تھوڑا ملال ہو گا
کسی کی خاطر ہی سہہ رہا ہوں میں موسموں کے یہ سب تھپیڑے
کبھی نہ سوچا تھا زندگی میں کہ ان پرندوں سا حال ہو گا
میں کم سنی سے ہی جانتا تھا درونِ ہستی کی وحشتوں کو
مجھے خبر تھی کہ اپنا لاشہ اٹھا کے جینا محال ہو گا
فیصل محمود
No comments:
Post a Comment