ستمگروں کا بھرم پائمال کرتا رہے
قفس میں رہ کے بھی پنچھی دھمال کرتا رہے
کوئی تو ہو جو مِری خامشی سمجھتا ہو
کوئی تو ہو جو مسلسل سوال کرتا رہے
کوئی تو ہو کہ جو سمجھے میں ایک شاعر ہوں
ہر ایک شعر پہ آہا، کمال کرتا رہے
اسی لیے تو میں خود سے بنا کے رکھتا ہوں
کوئی تو ہو جو مِری دیکھ بھال کرتا رہے
کوئی تو ہو کہ جسے اور کوئی کام نہ ہو
گھڑی گھڑی مجھے چھپ چھپ کے کال کرتا رہے
کوئی تو ہو کہ بچھڑنے کا ڈر ستائے جسے
پلٹ پلٹ کے مراسم بحال کرتا رہے
علی ارتضیٰ
No comments:
Post a Comment