نوحہ
یہ کس بارود نے بچپن کی پگڈنڈی جلا ڈالی
کہ جن پر بھاگتے ننھے سے پیروں نے نئی صبحوں کو چھونا تھا
کھلے افلاک پر ہنستے ستاروں سے لپٹنا تھا
تمہارا دکھ اکیلا دکھ نہیں ہے
ہوائیں آج بھی نوحہ کناں ہیں
درودیوار مکتب کے تمہاری یاد میں گریہ فناہیں
وطن کی خاک سے یہ پوچھتے ہیں
کہاں گم ہو گئے اڑتے ہوئے کومل پرندے
تیری آغوش میں کیا چھپ گئے ہیں
کسی کی مار سے کیا ڈر گئے ہیں
ابھی فرقت کی کیا کوئی عمر تھی ان کی
یہ کیسا داغ ہے جو دے گئے ہیں
کبھی سوچا ہے تم نے
کہ لفظ داغ تو لفظ دغا ہے
صریحاً ایک دھوکہ ہے
وطن سے ناوفائی، کج ادای، بے نگاہی
کس دھوکے سے کیا کم ہے
کسی وحشت سے کیا کم ہے
کہا کرتے ہیں اہل فکر و دانش
حصار سرزمیں پاک گر مضبوط ہو جائے
کسی دہشت میں اتنا دم کہاں ہے
کہ پوری نسل کو ہی چاٹ جائے
فرخندہ شمیم
No comments:
Post a Comment