Wednesday, 26 April 2023

یہ کس بارود نے بچپن کی پگڈنڈی جلا ڈالی

 نوحہ 


یہ کس بارود نے بچپن کی پگڈنڈی جلا ڈالی

کہ جن پر بھاگتے ننھے سے پیروں نے نئی صبحوں کو چھونا تھا

کھلے افلاک پر ہنستے ستاروں سے لپٹنا تھا

تمہارا دکھ اکیلا دکھ نہیں ہے

ہوائیں آج بھی نوحہ کناں ہیں

درودیوار مکتب کے تمہاری یاد میں گریہ فناہیں

وطن کی خاک سے یہ پوچھتے ہیں

کہاں گم ہو گئے اڑتے ہوئے کومل پرندے

تیری آغوش میں کیا چھپ گئے ہیں

کسی کی مار سے کیا ڈر گئے ہیں

ابھی فرقت کی کیا کوئی عمر تھی ان کی

یہ کیسا داغ ہے جو دے گئے ہیں

کبھی سوچا ہے تم نے

کہ لفظ داغ تو لفظ دغا ہے

صریحاً ایک دھوکہ ہے

وطن سے ناوفائی، کج ادای، بے نگاہی

کس دھوکے سے کیا کم ہے

کسی وحشت سے کیا کم ہے

کہا کرتے ہیں اہل فکر و دانش

حصار سرزمیں پاک گر مضبوط ہو جائے

کسی دہشت میں اتنا دم کہاں ہے

کہ پوری نسل کو ہی چاٹ جائے


فرخندہ شمیم

No comments:

Post a Comment