غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں
نہ ہو یہ کھیل تو پھر لُطف زندگی بھی نہیں
نہیں کہ دل میں تمنا مِرے کوئی بھی نہیں
مگر ہے بات کچھ ایسی کہ گُفتنی بھی نہیں
حُسن ہر شے میں ہے گر حُسن نگاہوں میں ہو
دل جواں ہو تو ہر اک شکل بھلی لگتی ہے
ادائیں ان کی سُناتی ہیں مجھ کو میری غزل
غزل بھی وہ کہ جو میں نے ابھی کہی بھی نہیں
حضور دوست مِرے گو مگو کے عالم نے
کہا بھی ان سے جو کہنا تھا بات کی بھی نہیں
وہ کہہ رہے ہیں مجھے قتل کر کے اے فضلی
کہ ہم نہیں جو تِرے قدر داں کوئی بھی نہیں
سید فضل کریم فضلی
No comments:
Post a Comment