موسم صد رنگ کا جوہر کُھلا
زخمِ دل کے ساتھ زخمِ سر کھلا
ہو گئی خوش بخت دستک، در کھلا
آج مدت بعد اس کا گھر کھلا
گر زمیں تیری نہیں تو نہ سہی
آسماں تو ہے تِرا سر پر کھلا
ہاں وہ میرا دوست ہے پہچان لو
آستیں میں رکھتا ہے خنجر کھلا
باندھ کے رکھ اپنی خوشیوں کا پرند
پل میں اڑ جائے گا ظالم، گر کھلا
پھر رہے ہیں شہر میں ہر سمت ناگ
چھوڑئیے نہ اس طرح ہر در کھلا
جب نہ تابِ غم ہے، نہ تابِ سخن
ہائے کب کم بخت نامہ بر کھلا
صابر ادیب
No comments:
Post a Comment