Sunday, 30 April 2023

طریق عشق میں برباد ہونا پڑتا ہے

 طریقِ عشق میں برباد ہونا پڑتا ہے

گلوں کی چاہ میں کانٹوں پہ سونا پڑتا ہے

بس ایک لمحۂ راز و نیاز کی خاطر

بشر کو مدتوں چھپ چھپ کے رونا پڑتا ہے

ضمیر بیچ کے منصب تو مل ہی جائے گا

وقار پہلے مگر اس میں کھونا پڑتا ہے

ہے بد لحاظ یہ دنیا کوئی کہاں جائے

قدم قدم پہ یہاں خوار ہونا پڑتا ہے

یہ فاقہ کش کہ جنہیں حیف خود فریبی میں

شکم کی سیری کو پانی بلونا پڑتا ہے

معاشرے کا ہو ناسور یا بدن کا گھاؤ

علاج کے لئے نشتر چبھونا پڑتا ہے

پسارے ہاتھ تو پھرتے ہو مال و زر کے لیے

بالآخر ان سے مگر ہاتھ دھونا پڑتا ہے

پرائے درد میں ہوتا نہیں شریک کوئی

غموں کے بوجھ کو خود آپ ڈھونا پڑتا ہے

یہ سچ ہے چاند شگفتہ غزل جو کہنی ہو

قلم کو خون جگر میں ڈبونا پڑتا ہے


مہندر پرتاب چاند

No comments:

Post a Comment