Thursday 27 April 2023

جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے

 جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے

جس شخص کو بھی دیکھیے تصویر یاس ہے

جب سے مسرتوں کی ہوئی جستجو مجھے

میں بھی اداس ہوں مِرا دل بھی اداس ہے

لاشوں کا ایک ڈھیر ہے گھیرے ہوئے مجھے

آباد ایک شہر مِرے آس پاس ہے

مجھ سے چھپا سکے گی نہ اپنے بدن کا کوڑھ

دنیا مِری نگاہ میں یوں بے لباس ہے

یاران مے کدہ مِرا انجام دیکھنا

تنہا ہوں اور سامنے خالی گلاس ہے

اب ترک آرزو کے سوا کیا کریں زہیر

اس دشت آرزو کی فضا کس کو راس ہے


زہیر کنجاہی

No comments:

Post a Comment