جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے
جس شخص کو بھی دیکھیے تصویر یاس ہے
جب سے مسرتوں کی ہوئی جستجو مجھے
میں بھی اداس ہوں مِرا دل بھی اداس ہے
لاشوں کا ایک ڈھیر ہے گھیرے ہوئے مجھے
آباد ایک شہر مِرے آس پاس ہے
مجھ سے چھپا سکے گی نہ اپنے بدن کا کوڑھ
دنیا مِری نگاہ میں یوں بے لباس ہے
یاران مے کدہ مِرا انجام دیکھنا
تنہا ہوں اور سامنے خالی گلاس ہے
اب ترک آرزو کے سوا کیا کریں زہیر
اس دشت آرزو کی فضا کس کو راس ہے
زہیر کنجاہی
No comments:
Post a Comment