ہے برقرار زمیں آسمان باقی ہے
ہمارا اب بھی کوئی امتحان باقی ہے
ابھی تو اور ستم ہم پہ ڈھائے گی دنیا
یہ دیکھنے کے لیے آسمان باقی ہے
ہمارے بچوں کے رہبر کی اب نہیں حاجت
قدم قدم کا ہمارے نشان باقی ہے
اساس رکھتی تھی جس کی لہو پہ ہم نے دیکھی
ہمارے گاؤں کا بس وہ مکان باقی ہے
ابھی تو دل ہی دیا ہے جناب کو میں نے
ابھی تو جان یہ کرنے کو دان باقی ہے
ہمارے میل و محبت سے آج تک عبرت
ہمارے شہر کا امن و امان باقی ہے
عبرت بہرائچی
No comments:
Post a Comment