چوکھٹ پہ تیری لطف صدا کا خرید کر
صدیاں خرید لی ہیں یہ لمحہ خرید کر
اس بے وفا سے پیار کی قیمت نہ لگ سکی
لائے گا میرے واسطے دنیا خرید کر
شہرِ ہنر سے خود ہی بڑی شدتوں سے ہم
لے آئے آنسوؤں کا یہ دریا خرید کر
جب دل ہی بجھ گیا ہو یہ ہجراں کے درد سے
میں کیا کروں گی رونقِ چہرہ خرید کر
یوسف سے آفتاب کو انجامِ عشق میں
زنداں میں ڈال دے گی زلیخا خرید کر
خوش تھے جو روشنی کے تماشے کو دیکھ دیکھ
شرمندہ کس قدر ہیں اندھیرا خرید کر
سب کچھ ہی بیچ ڈالا ہے اس کارِ زیست میں
اور شادماں ہوں شہرِ تمنا خرید کر
اسماء ہادیہ
No comments:
Post a Comment