خود اپنے آپ سے ہم بے خبر سے گُزرے ہیں
خبر کہاں کہ تِری رہگزر سے گزرے ہیں
نفس نفس ہے معطر،۔ نظر نظر شاداب
کہ جیسے آج وہ خواب سحر سے گزرے ہیں
نہ پوچھ کتنے گُل و نسترن کا رُوپ لیے
بہارِ نو کے تقاضے نظر سے گزرے ہیں
بہارِ خُلد بہ ہر گام ساتھ ساتھ رہی
تِرے خیال میں کھوئے جدھر سے گزرے ہیں
اماں ملی بھی جو ان کو تو تیرے دامن میں
وہ کارواں جو مِری چشمِ تر سے گزرے ہیں
دلوں پہ چھوڑ گئے نقش اپنی یادوں کا
تمہارے درد کے مارے جدھر سے گزرے ہیں
حسیں ہو تم کہ تمہاری کوئی مثال نہیں
حسین یوں تو ہزاروں نظر سے گزرے ہیں
حمید! پوچھ نہ آشوبِ دہر کا عالم
ہزار فتنۂ محشر نظر سے گزرے ہیں
حمید ناگپوری
No comments:
Post a Comment