سزا کے بعد مجھے جب رہائی دینے لگا
میں صاف ہو کے بھی اس کو صفائی دینے لگا
سمجھ رہا تھا وہ اندھا مجھے محبت میں
پھر اس نے دیکھا کہ مجھ کو دکھائی دینے لگا
کُھلے ہیں رِزق کے مجھ پر ہزاروں دروازے
میں ماں کے ہاتھ میں جب سے کمائی دینے لگا
یقین جان کہ بہرے تھے روز اول سے
پُکارا تم نے تو ہم کو سُنائی دینے لگا
وہ میری انگلی جھٹک کر چلا گیا عابد
میں جس کے ہاتھ میں اپنی کلائی دینے لگا
علی عابد
No comments:
Post a Comment