Thursday, 27 April 2023

نظر کا مل کے ٹکرانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

 نظر کا مل کے ٹکرانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

محبت کا وہ افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

ستایا تھا ہمیں کتنا زمانے کے تغیر نے

زمانے کا بدل جانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

بھری برسات میں پیہم جدائی کے تصور سے

وہ مل کر اشک برسانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

بہاریں گلستاں کی راس جب ہم کو نہ آئی تھیں

خزاں سے دل کا بہلانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

گزاریں کتنی راتیں گن کے تارے درد فرقت میں

جدائی کا وہ افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

فریب آرزو کھانا ہی فطرت ہے محبت کی

فریب آرزو کھانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

ہنسی میں کٹتی تھیں راتیں خوشی میں دن گزرتا تھا

کنول ماضی کا افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے


کنول ڈبائیوی

No comments:

Post a Comment