تعمیرِ نو قضا و قدر کی نظر میں ہے
آج ایک زلزلہ سا ہر اک بام و در میں ہے
کتنے چراغ امید کے جل جل کے بجھ گئے
کیا جانے کتنی دیر طلوعِ سحر میں ہے
ہر اک ہے سُوئے منزل جاناں رواں دواں
ہر ذرہ کائنات کا پیہم سفر میں ہے
گم کردہ راہ ہو کے بھی ان سے ہوئے نہ دور
گم گشتگی بھی ہے تو اسی رہگزر میں ہے
آئی کہاں سے دیر و حرم میں یہ روشنی
میری جبیں کا نور مرے سنگ در میں ہے
گزری روش روش میں جلاتی ہوئی چراغ
شان خرام یار نسیم سحر میں ہے
تم جو نہیں تو گھر میں وہ اب بات ہی نہیں
دیوار و در کی بات تو دیوار و در میں ہے
دل بھی دھڑک رہا ہے نگاہیں بھی در پہ ہیں
اک خاص لطف وعدۂ نا معتبر میں ہے
ڈر ہے کہیں مجھی کو یہ پہلے ڈبو نہ دے
طوفان التجا جو مری چشم تر میں ہے
ساحل تک آئی موج یہ کہہ کر پلٹ گئی
جینے کا لطف زندگئی پر خطر میں ہے
خنجر بکف ہے یہ تو وہ خنجر در آستیں
اتنا سا فرق راہزن و راہ بر میں ہے
آئی جگر فگار حوادث کے فیض سے
شوخی جو ان دنوں مرے خون جگر میں ہے
اہل ہنر کے دل میں دھڑکتے ہیں سب کے دل
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
افشائے راز دل تو بڑا عیب ہے مگر
ہو گر ادب کے ساتھ تو داخل ہنر میں ہے
آنکھوں میں بے ہنر کی کھٹکتا ہے بن کے عیب
یہ اک عجیب بات کمال ہنر میں ہے
ہوتا ہے بزم غیر میں بھی اب جو ذکر خیر
کوئی تو بات فضلئ آشفتہ سر میں ہے
سید فضل کریم فضلی
No comments:
Post a Comment