ہم ایسے خانہ خرابوں کے روز شب کی بات
وہی دیارِ تمنا،۔ وہی گزر اوقات
برائے گِریہ ضروری ہے لمحہ گزرا ہوا
وگرنہ دربدری سے ملی ہے کس کو نجات
چراغِ خانۂ تنہائی، جل بُجھا آخر
جوازِ ترکِ سکونت ہزار ہا خدشات
بغیر ابر کے نادیدہ بارشوں کے سبب
زمیں نے اوڑھ لیے ہیں بہت سے امکانات
سمجھ میں آ گئی غم کی مناسبت شاداب
ذرا سی دیر میں تبدیل ہو گئے حالات
شاداب احسانی
No comments:
Post a Comment